1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے تلف کرنے کی ڈیل اور مغربی سفارتکاری

عابد حسین16 ستمبر 2013

شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کی جو ڈیل روس اور امریکا کے درمیان طے پائی ہے، اب اس کی منظوری اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل کے ادارے سے حاصل کی جانا ہے۔ اس مناسبت سے فرانس ایک سخت قرارداد پیش کرنے کا متمنی ہے۔

https://p.dw.com/p/19iIs
تصویر: Reuters

آج فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں تین اہم مغربی طاقتوں امریکا، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ ایک اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں یہ اتفاقِ رائے ہوا کہ اگر شامی صدر بشار الاسد جنیوا ڈیل کے حوالے سے طے پانے والی اقوام متحدہ کی قرارداد پر پوری طرح عمل نہیں کرتے تو انہیں سخت نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ جان کیری کا کہنا تھا کہ اسد حکومت کو مکمل طور پر اُن بنیادی اصولوں کو تسلیم کرنا ہو گا، جن پر سب میں اتفاق ہوا ہے، اس کے علاوہ کچھ بھی ہوا تو وہ اُن کے لیے ناقابلِ قبول ہو گا۔ اسد حکومت اگر اِن پر عمل نہیں کرے گی تو اسے اِس کے نتائج بھگنتا ہوں گے اور اس پراُن کے اور روس کے درمیان اتفاق ہے۔

جان کیری کا مزید کہنا تھا کہ اسد حکومت کو طے شدہ ڈیل سے ادھر اُدھر نہیں ہونے دیا جائے گا۔ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ لاراں فابیوس نے میٹنگ کے بعد کہا کہ اب اہم بات یہ ہے کہ اس سمجھوتے کو جلد از جلد عملی شکل دی جائے اور اُن کیمیائی ہتھیاروں کے ایسے خطرے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے جو اسد حکومت اپنے شہریوں اور اپنے ہمسایہ ممالک کے خلاف بھی استعمال کر رہی ہے۔

Syrien Kerry Hollande und Hague Paris 16.09.2013
امریکی وزیر خارجہ جان کیری پیرس میٹنگ کے دوران فرانسیسی صدر سے مصافحہ کرتے ہوئےتصویر: Reuters

اُدھر روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے برطانیہ، فرانس اور امریکا کو متنبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ میں شام کے بارے میں سخت قرارداد پیش کرنے سے امن کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔ لاوروف نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ امریکا شام کے حوالے سے روس کے ساتھ طے شدہ فریم ورک کا پابند رہتے ہوئے مذاکراتی پارٹنر بنا رہے گا۔ روسی وزیرخارجہ نے کہا کہ جنیوا ٹو کانفرنس کو طلب کرنا شام میں امن قائم کرنے کے کا ایک دوسرا راستہ ہے۔ لاوروف نے اسد حکومت کے مخالفین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ امن بحال کرنے کے لیے دمشق حکومت سے مذاکرات کی راہ اپنائیں۔

شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ الزامات کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے جنگی جرائم کے کمیشن کے چیرمین Paulo Pinheiro کا کہنا ہے کہ انہیں کُل چودہ الزامات کی چھان بین کرنا تھی۔ شام کے اندر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور متاثرہ مقام کا دورہ کرنے والی معائنہ کاروں کی ٹیم کے سربراہ Ake Sellstrom نے اپنی رپورٹ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو پیش کر دی ہے۔ اب بان کی مون سکیورٹی کونسل کے ایک بند کمرے میں ہونے والے اجلاس میں اس رپورٹ کے مندرجات سے رکن ممالک کو آگاہ کریں گے۔ ایسی توقع بھی ہے کہ وہ آج ہی جنرل اسمبلی میں یہ رپورٹ پیش کر سکتے ہیں۔

Kerry und Lawrow in Genf
جنیوا میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور امریکی وزیہ خارجہ جان کیریتصویر: Reuters

شام کے بارے میں اقوام متحدہ کے کمیشن کے سربراہ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ شام کے بارے میں اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی رکن کارلا ڈیل پونٹے کو ذاتی حیثیت میں شام کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی ہے لیکن تحقیقاتی کمیشن نے انہیں سرکاری طور پر ایسا دورہ کرنے کی تلقین کی ہے۔

دوسری جانب یہ بھی سامنے آیا ہے کہ شام میں جاری مسلح تنازعے کی وجہ سے ہیلتھ سیکٹر انہدام کے قریب پہنچ گیا ہے۔ پچاس سے زائد بین الاقوامی شہرت کی حامل معالجین اور پیشہ ور سائنسدانوں کے دستخطوں سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ شام میں جنگ کے بعد صحت عامہ کی صورت حال ابتر ہو چکی ہے اور مزید کچھ ہفتوں کے بعد شعبہ صحت کا ڈھانچہ گر سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پندرہ ہزار ڈاکٹر شام سے راہِ فرار اختیار کر چکے ہیں۔ شام بھر میں 37 فیصد ہسپتال تباہ ہو گئے ہیں جب کہ 20 فیصد ہسپتالوں کی عمارتیں شیلنگ سے تباہ حال ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق شام کے سب سے بڑے شہر حلب میں پانچ ہزار ڈاکٹروں کی جگہ صرف چھتیس موجود ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بے ہوش کرنے والی ادویات کے بغیر زخمیوں کا آپریشن کیا جا رہا ہے اور عورتیں بغیر کسی طبی مدد کے بچے پیدا کرنے پر مجبور ہیں۔