1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے، حسن نصر اللہ

عاطف بلوچ17 فروری 2014

شیعہ تنظیم حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ وہ شامی باغیوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے لیکن اگرعرب سیاسی قوتیں شامی تنازعے میں مداخلت سے باز آ جاتی ہیں تو لبنانی تنظیم حزب اللہ کے جنگجو بھی شام چھوڑ دیں گے۔

https://p.dw.com/p/1BA71
Symbolbild Syrien
تصویر: Reuters/Hosam Katan

حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے اتوار کے دن عرب ریاستوں پر زور دیا ہے کہ وہ شام میں جاری جنگ کا مزید حصہ نہ بنیں۔ انہوں نے عہد کیا ہے کہ اگر سنی سیاسی قوتیں شام کو اس کے حال پر تنہا چھوڑ دیں تو حزب اللہ کے جنگجو بھی اس شورش زدہ ملک کو خیر باد کہہ دیں گے۔

یہ امر اہم ہے کہ شام میں گزشتہ تین برس سے جاری سیاسی بحران نے علاقائی سطح پر شیعہ اور سنی گروہوں میں ایک تناؤ کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ یہ کشیدگی لبنان اور عرب کی دیگر ریاستوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی وجہ سے شام میں جاری خانہ جنگی میں دونوں گروہوں نے اپنے اپنے جنگجو روانہ کر دیے ہیں۔ یہ جنگجو گروہ نہ صرف ان متحارب علاقائی طاقتوں سے فنڈز وصول کررہے ہیں بلکہ اسلحہ بھی۔

Hassan Nasrallah
حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہتصویر: AP

شامی بحران کے علاقائی سطح پر منفی اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے حسن نصر اللہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر شام کو تنہا نہیں چھوڑا جاتا تو یہ تنازعہ تمام خطے کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس خطے کو افراتفری سے بچانا مقصود ہے تو شام میں جاری خانہ جنگ کا حصہ نہ بنا جائے۔

عرب دنیا کی تمام سیاسی طاقتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے نصر اللہ نے کہا، ’’شام سے اپنے اپنے جگنجو نکال لو، شامی عوام کو خود مصالحت کا موقع دو۔‘‘ ایران کی حمایت یافتہ تحریک حزب اللہ کے رہنما کا مزید کہنا تھا، ’’اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینی طور پر ہم بھی شام میں نہیں رہیں گے۔‘‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حسن نصر اللہ کی یہ تقریر بظاہر لبنانی سیاستدان سعد حریری کی اس تقریر کو جواب معلوم ہوتی ہے، جس میں حریری نے زور دیا تھا کہ وہ اپنے سنی فرقے میں پائی جانے والی عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے کوشش کریں گے۔ جمعے کے دن حریری نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ البتہ حزب اللہ بھی شام میں اپنی مداخلت ختم کر دے تاکہ ’فرقہ ورانہ ہولو کوسٹ‘ سے بچا جا سکے۔

خیال رہے کہ شامی صدر بشار الاسد کی فورسز گزشتہ برس حزب اللہ کے جنگجوؤں کی مدد سے باغیوں کو پسپا کرنے میں کامیاب ہو گئی تھیں اور اب دمشق کے نواح میں واقع وسطی شام کے زیادہ تر علاقوں کے علاوہ لبنان سے ملحقہ سرحدی علاقوں پر بھی شامی فوج کو کنٹرول حاصل ہو چکا ہے۔

Saad Hariri
لبنانی سیاستدان سعد حریریتصویر: AP

تاہم شامی خانہ جنگی نے لبنان میں بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں، جو سن 1975 تا 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اثرات پر قابو پانے کی کوشش میں ہے۔ شامی باغیوں کی زیادہ تر تعداد سنی فرقے سے تعلق رکھتی ہے جب کہ صدر اسد کا تعلق علوی مسلک سے ہے، جو شیعہ اسلام کی ایک شاخ تصور کیا جاتا ہے۔ جب سے شام میں بحرانی کیفیت پیدا ہوئی ہے، تب سے لبنان میں بھی سنی جنگجو زیادہ فعال ہو گئے ہیں۔

حسن نصر اللہ نے لبنان میں اپنے سیاسی حریفوں سے مخطاب ہوتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سنی جنگجو طاقت حاصل کرنے کے بعد حریری کی ’فیوچر موومنٹ‘ کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’اگر یہ (سنی جنگجو گروہ) جیت جاتے ہیں تو کیا لبنان کی فیوچر پارٹی کا کوئی مستقبل ہو گا۔۔۔ ہم سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے گا اور اس کی مثال ہے شام، افغانستان، صومالیہ اور پاکستان‘ جہاں القاعدہ کے حامی جنگجوؤں نے متعدد علاقوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اسی لیے وہ شام میں ’اسلامی ریڈیکل‘ باغیوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔