1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں شدت پسند گروہ کی تازہ کارروائياں

عاصم سليم2 فروری 2014

ہفتے کو منظر عام پر آنے والی ايک ويڈيو ميں شام ميں القاعدہ سے منسلک باغيوں کو ايک شخص کا سر قلم کرتے دکھايا گيا ہے۔ سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس کے مطابق اِس واقعے ميں اسلامی رياست برائے عراق و شام کے باغی ملوث ہيں۔

https://p.dw.com/p/1B1QI
تصویر: Radwan Mortada

ويڈيو ميں سياہ لباس ميں ملبوس مسلح افراد نے گھاس پر ليٹے ہوئے ايک نامعلوم شخص کو گھيرے ميں لے رکھا ہے۔ بعد ازاں ايک باغی کو ايک چھوٹے چاقو کی مدد سے اُس شخص کا سر قلم کرتے دکھايا گيا ہے۔ جائے وقوعہ پر بچوں سميت کئی ديگر افراد بھی موجود تھے، جِنہيں اِن مناظر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اور تصاوير بناتے ہوئے دکھايا گيا ہے۔

لندن ميں قائم سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس کے مطابق يہ ويڈيو وسطی صوبے حمص ميں بنائی گئی ہے۔ تنظيم نے اِس ويڈيو کو ہفتے کے روز جاری کيا تاہم تاحال کسی آزاد ذرائع سے اِس ويڈيو کے اصلی ہونے کی تصديق نہيں ہو پائی ہے۔

شام ميں گزشتہ قريب تين برس سے جاری حکومت مخالف تحريک نے کافی پيچيدہ شکل اختيار کر لی ہے۔ وہاں اعتدال پسند باغيوں کے ساتھ ساتھ متعدد سخت گير اسلامی شدت پسند گروہوں نے صدر بشار الاسد کے خلاف مسلح تحريک جاری رکھی ہوئی ہے۔ ’اسلامی رياست برائے عراق و شام‘ دہشت گرد نيٹ ورک القاعدہ سے منسلک ايسی ہی ايک تنظيم ہے۔

ايک ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد افراد ہلاک، غير سرکاری تنظيم

سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس کے ڈائريکٹر رامی عبدالرحمان نے ہفتے کے روز يہ دعوی کيا کہ شام ميں قريب تين برس سے جاری مسلح حکومت مخالف تحريک ميں گزشتہ ماہ، اب تک کے سب سے خونريز مہينوں ميں شامل ہے۔ دسمبر سن ۲۰۱۳ کے اختتام پر وہاں ہلاک شدگان کی تعداد 130,433 تھی جب کہ اُس وقت سے لے کر اب تک مزيد چھ ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہيں۔ آبزرويٹری کے مطابق مارچ سن ۲۰۱۱ سے شروع ہونے والی اِس تحريک ميں اب تک ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد جنوری کے اختتام پر 136,227 تھی۔

جنيوا ٹو امن کانفرنس جمعے کے روز اختتام پذير ہوئی
جنيوا ٹو امن کانفرنس جمعے کے روز اختتام پذير ہوئیتصویر: Fabrice Coffrini/AFP/Getty Images

سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس کے مطابق يہ خون خرابہ يکم فروری کے روز بھی جاری رہا اور مجموعی طور پر چھياليس شہری ہلاک ہوئے۔ سرکاری افواج نے شمالی شہر حلب پر ہيلی کاپٹروں سے بيرل بم برسائے، جِن سے طارق الباب نامی ايک علاقے ميں کل تينتيس سويلين مارے گئے۔ حلب ہی کے ايک اور علاقے ميں سات افراد اُس وقت ہلاک ہوئے جب جہادی تنظيم ’اسلامی رياست برائے عراق و شام‘ نے دو کار بم دھماکوں کے ذريعے باغيوں کے ہيڈ کوارٹر کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ وسطی صوبے ہاما ميں مورک نامی شہر کے قريب بارہ سرکاری فوجی بھی مارے گئے۔

لبنان ميں کار بم دھماکا، کم از کم چار افراد ہلاک

شامی بحران نے ملک کے تمام حصوں کے علاوہ خطے کے ديگر کئی ممالک کو بھی اپنی لپيٹ ميں لے ليا ہے اور اِس کا ايک تازہ ثبوت ہفتے کو لبنان کے مشرقی شہر ہيرمل ميں ايک پيٹرول اسٹيشن پر ہونے والا کار بم دھماکا ہے۔ اِس دھماکے کے نتيجے ميں کم از کم چار افراد ہلاک اور پندرہ ديگر زخمی ہوئے۔ لبنانی فوج کے مطابق سرحد سے قريب جِس علاقے ميں يہ حملہ کيا گيا، وہ شيعہ تنظيم حزب اللہ کا گڑھ ہے۔

لبنان ميں فعال النصرہ فرنٹ، جو نيوز ايجنسی اے ايف پی کے مطابق شام کی ’اسلامی رياست برائے عراق و شام‘ سے منسلک ہے، نے مائکرو بلاگنگ ويب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے ايک پيغام ميں اِس حملے کے ذمے داری قبول کر لی ہے۔ حزب اللہ کی جانب سے يہ اعتراف کيا جا چکا ہے کہ اِس تنظيم نے اپنے جنگجوؤں کو شامی صدر اسد کی افواج کے شانہ بشانہ لڑنے کے ليے بھيجا ہے۔ اِس بيان کے بعد سے خزب اللہ کے خلاف سات حملے کيے جا چکے ہيں۔