1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں زمانہء سرد جنگ کی بازگشت

14 جون 2012

شام سے متعلق امریکہ کے مقابلے میں روس کے موقف میں زمانہء سرد جنگ کی بین الاقوامی سیاست کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک اعلیٰ اسرائیلی کمانڈر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اب ’ون مین شو‘ نہیں رہا۔

https://p.dw.com/p/15EGf
تصویر: picture-alliance/dpa

اس اسرائیلی کمانڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد کے لیے روس اور چین کی حمایت معاملات کو ایک مرتبہ  پھر سرد جنگ کے زمانے کی جانب لے جارہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی شامی حکومت کو بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں کا ذمہ دار سمجھتی ہے اور اس کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دو مستقل ارکان، روس اور چین، کسی بھی قسم کی بیرونی سیاسی و فوجی مداخلت کے خلاف ہیں۔

اسرائیلی کمانڈر کے بقول شام میں ’’پراکسی وار‘‘ جاری ہے اور اس میں شامی صدر بشار الاسد کے لیے خطے میں ایران اور لبنان کی حزب اللہ سے روزانہ کی بنیادوں پر براہ راست مدد مل رہی ہے۔ اس اسرائیلی کمانڈر کا کہنا ہے کہ صورتحال جس قدر بگڑ چکی ہے اسے ٹھیک ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ محض گزشتہ پندرہ ماہ کی شورش اور بدامنی نے دس ہزار سے زائد شہریوں کی جان لے لی ہے۔ شام کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے ایک ترک تجزیہ نگار چان کاساپوگلو کے بقول ایران شام میں اپنے علوی ساتھیوں کو مسلح کر رہا ہے جبکہ ترکی حکومت مخالفین کو اسلحہ فراہم کر رہی ہے۔ ان کے بقول شام میں حکومت مخالف سُنی اپوزیشن کو سعودی عرب اور قطر کی بھی مدد حاصل ہے۔

شام کے لیے اقوام متحدہ کے مبصر مشن نے وہاں کی صورتحال کو خانہ جنگی قرار دے دیا ہے۔ مغربی طاقتیں مسلسل یہ یقین دہانی کرارہی ہیں کہ وہ شام میں فوجی مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتیں تاہم اسے خارج از امکان بھی قرار نہیں دیا گیا ہے۔

Außenminister-Treffen der G8 in Washington
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اپنے روسی ہن منصب سیرگئی لاو روف کے ہمراہ ایک سابقہ اجلاس کے موقع پرتصویر: Reuters

شام سے حاصل ہونے والی تازہ ویڈیوز میں حکومتی ٹینکوں کو خاکستر ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو اس بات کی غماز ہیں کہ حکومت مخالفین کو جدید ٹینک شکن ہتھیاردستیاب ہوگئے ہیں۔

شامی حکومت باضابطہ طور پر اسلحے کے لیے بڑے پیمانے پر روس پر انحصار کرتی ہے۔ اس ضمن میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے ماسکو پر انگلی اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ روسی اسلحہ عوام کے خلاف استعمال ہورہا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاف روف نے ان کے اس بیان کو مسترد کیا۔

اس بیان بازی اور پراکسی وار کو 1945ء تا 1989ء کی ان متعدد پراکسی وار جیسا ہی قرار دیا جارہا ہے، جو یونان، کوریا، ویتنام، لبنان، انگولا، موزمبیق، کیوبا، السالواڈور، نکاراگوا اور افغانستان میں لڑی گئیں۔ اس کے برعکس روس نے اپنے حلیف ملک سیربیا پر مغربی دفاعی اتحاد کی بمباری کے دوران کچھ نہیں کیا اور نہ ہی 2003ء میں عراق پر حملے کے وقت۔ تاہم سابقہ سوویت ریاست جورجیا سے علیٰحدگی کا اعلان کرنے والی ریاستوں ابخازیہ اور اوسیتیا کو روس نے خوب عسکری مدد فراہم کی۔ اس کے بعد روس کے قریبی ساتھی تصور کیے جانے والے ملک لیبیا پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی فوجی مداخلت پر ماسکو کو قدرے حیرت ہوئی اور اس نے اسے اقوام متحدہ کو غلط طور پر استعمال کیے جانے کا الزام عائد کیا۔

(sks/ ab (Reuters