1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام سے متعلق امن کانفرنس، تاریخ طے نہ ہو سکی

عاطف بلوچ6 نومبر 2013

عالمی طاقتیں شام سے متعلق امن کانفرنس کے لیے حتمی تاریخ طے کرنے میں ایک بار پھر ناکام ہو گئی ہیں۔ اس بین الاقوامی کانفرنس میں شرکاء کے لیے کیا شرائط ہونا چاہییں، اس پر بھی فریقین میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1ACo3
تصویر: picture-alliance/dpa/United Nations

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے نمائندہ خصوصی برائے شام لخضر براہیمی کے حوالے سے بتایا ہے کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کانفرنس کا انعقاد رواں برس کے اختتام تک ممکن ہو سکے۔ منگل کو جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے براہیمی نے کہا، ’’ہم امید کر رہے تھے کہ ہم آج اس کانفرنس کی حتمی تاریخ کا اعلان کر دیں گے، لیکن بدقسمتی سے ہم ناکام ہو گئے ہیں۔‘‘ لخضر براہیمی نے مزید کہا کہ وہ پچیس نومبر کو ایک بار پھر روسی اور امریکی حکام سے ملیں گے تاکہ اس کانفرنس کے انعقاد میں زیادہ دیر نہ ہو۔

براہیمی کے اس بیان سے قبل عالمی سفارتکاروں نے جنیوا میں دن بھر سیر حاصل مذاکرات کیے، جن کا مقصد شامی بحران کے خاتمے کے لیے اس بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کے لیے تیاریاں مکمل کرنا تھا۔ ستمبر میں روس اور امریکا کے مابین ہونے والی ایک ڈیل کے تحت شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے پر اتفاق رائے کے بعد یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ شامی بحران کے حل کے لیے شاید تمام فریق مذاکرات کی میز پر آ جائیں گے، جس کی وجہ سے شام میں قیام امن کے لیے کسی سمجھوتے تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔

Lakhdar Brahimi
الجزائر سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار ثالث براہیمیتصویر: Reuters/Khaled al-Hariri

لخضر براہیمی نے بتایا کہ شامی اپوزیشن ’جنیوا ٹو‘ نامی اس کانفرنس میں اپنی شرکت کے حوالے سے منقسم ہے تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ اس کانفرنس کے لیے ایک وفد نامزد کرنے کی طرف رواں ہے۔ اس تناظر میں الجزائر سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار ثالث براہیمی نے مزید کہا، ’’یہ ایک بڑا قدم ہو گا، جس سے اس کانفرنس کا انعقاد ممکن ہو سکے گا۔‘‘

ادھر شامی اپوزیشن گروپوں کی نمائندہ سیریئن نیشنل کولیشن نے کہا ہے کہ اس کا ایک اجلاس آئندہ ہفتے کے روز استنبول میں ہو رہا ہے، جس میں یہ اپوزیشن اتحاد فیصلہ کرے گا کہ آیا اسے ’جنیوا ٹو‘ کانفرنس میں شرکت کرنا چاہیے۔ سیریئن نیشنل کولیشن کا موقف ہے کہ مذاکرات سے قبل شامی صدر بشار الاسد کو اقتدار سے الگ ہو جانا چاہیے جبکہ صدر اسد اس مطالبے کو مسترد کرتے ہیں۔ اسی طرح اس کانفرنس میں شامی صدر بشار الاسدکے حامی ملک ایران کی شرکت بھی ایک تنازعہ بنا ہوا ہے۔

ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ یہ کانفرنس رواں برس کے اواخر تک منعقد ہو سکتی ہے۔ کانفرنس کی اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے اس امریکی اہلکار نے کہا، ’’یہ شام کے مستقبل سے متعلق ہے۔ یہ ایک طویل، مشکل اور پیچیدہ عمل ہے۔ اگر اس سلسلے میں تیاری کے لیے شامی اپوزیشن مزید کچھ ہفتے چاہتی ہے تو ہمیں اس حوالے سے تعاون کرنا چاہیے۔‘‘

ادھر پولینڈ کے دورے پر گئے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ اس امن کانفرنس کا مقصد شام میں ایک ایسی عبوری حکومت کی تشکیل ہے، جو شام میں تمام فریقوں کے لیے قابل قبول ہو۔ قبل ازیں جان کیری نے اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران سعودی رہنماؤں سے بھی شام کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی تھی۔ شامی باغیوں کے بڑے حامی عرب ممالک سعودی عرب اور قطر کا کہنا ہے کہ شامی بحران کے خاتمے کے لیے ایک نظام الاوقات وضع کیا جائے تاکہ یہ مسئلہ مزید طول نہ پکڑے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید