1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی پناہ گزینوں کی امریکا آمد میں حائل مشکلات

کشور مصطفیٰ18 جون 2015

شام کی جنگ دنیا کے پناہ گزینوں کے سب سے بڑے بحران کا سبب بن چُکی ہے تاہم امریکا نے اس سلسلے میں شامی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں لانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FjKz
تصویر: picture alliance/AA

شورش زدہ عرب ریاست شام سے پناہ وہاں کے باشندوں کے اخراج کا سلسلہ دنیا کے پناہ گزینوں کے سب سے بڑے بحران کی شکل اختیار کر چُکا ہے۔ اس تناظر میں امدادی تنظیموں اور صدر باراک اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاستدانوں کی طرف سے امریکا پر سخت تنقید کی جا رہی ہے کہ بہت محدود تعداد میں شامی پناہ گزینوں کو امریکا آنے کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ اکتوبر سے اب تک 800 سے کچھ ہی زیادہ شامی پناہ گزین امریکی سر زمین میں داخل ہوئے ہیں۔ یہ تعداد جنگ سے متاثرہ قریب چار ملین شامی پناہ گزینوں کا عشر عشیر بھی نہیں بنتی۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزین کی منگل کو منظر عام پر آنے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق شام کی خانہ جنگی کے شکار پناہ گزینوں کے مسائل افغانستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین ہو چُکے ہیں۔

Flüchtlinge Grenzgebiet Türkei Syrien
ترکی پہنچنے والے شامی پناہ گزینتصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے اس سلسلے میں یہ بھی بتایا کہ 2011 ء سے شام میں جاری جنگ میں گزشتہ آٹھ ماہ پناہ گزینوں کے اعتبار سے کٹھن ترین مہینے ثابت ہوئے ہیں۔ ان آٹھ مہینوں میں شام سے انخلاء کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد جتنی رہی ہے، اتنی تعداد میں اس سے پہلے شامی مہاجرین ملک چھوڑ کر در در کی ٹھوکریں کھاتے نہیں دکھائی دیے۔ المیہ یہ کہ 2014 ء میں محض 249 شامی پناہ گزینوں کو امریکا آنے کی اجازت دی گئی۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے جس اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر یہ بیان دیا اُس کا کہنا تھا،’’ طویل اور جامع سکیورٹی چکس کرنے کے لیے اِن تارکین وطن میں سے کسی ایک یا فیملی کو کلیئر کرنے میں اوسطاً 18 ما ہ سےدو سال کا درمیانی عرصہ لگ سکتا ہے۔

امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی سے منسلک ایک چوٹی کے ڈیموکریٹ سیاستدان اور سینیٹر ’ ڈیان فائنشٹائن ‘ نے دیگر 14 سینیٹرز کے ساتھ مل کر مئی کے ماہ میں امریکی صدر باراک اوباما کو بھیجے جانے والے ایک خط پر دستخط کیے ہیں۔ اس تحریر میں اوباما سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ زیادہ شامی مہاجرین کو امریکا میں داخلے کی اجازت دیں۔

Türkei Flüchtlinge aus Syrien
سب سے زیادہ شامی پناہ گزین ترکی اور لبنان میں ہیںتصویر: picture alliance/AA

اُدھر انٹر نیشنل ریسیکو کمیٹی کے صدر ڈیوڈ میلی بینڈ نے کہا ہے کہ شامی مہاجرین کا 99 فیصد بوجھ شام کے ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اُردن نے اُٹھایا ہوا ہے تاہم امریکا اور دیگر ذرائع ان کی مدد کر رہے ہیں۔ میلی بینڈ کے بقول،’’ ہمیں یقین ہے کہ سب سے پہلے شامی پناہ گزینوں کے مصائب کم کرنے کے لیے چھان بین کے سلسلے کو تیز رفتار بنانے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی شام کے ہمسائے ممالک کے ساتھ یکجہتی کی پیشکش بھی کی جائے‘‘۔

اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کے امور کی ایجنسی یو این ایچ سی آر کے آبادکاری کے امور کے ایک سینیئر آفیسر لاری یونگ نے اس ضمن میں عندیہ دیا ہے کہ سال رواں کے دوسرے ششماہی کے دوران امریکا میں شامی مہاجرین کی آمد میں اضافہ متوقع ہے‘‘۔ تاہم امریکا میں سکیورٹی اور احتیاطی تدابیر کی سختیاں، جن میں شناختی چھان بین بھی شامل ہے برقرار رہیں گی۔