1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی خانہ جنگی کا حل صرف روسی مدد سے، جرمن چانسلر

ڈاگمار اینگل / امتیاز احمد6 جون 2015

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ بین الاقوامی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے روس کی ضرورت ہے لیکن اس کے باوجود روس کو دنیا کے بڑے صنعتی ممالک کے ساتھ بیٹھنے کی فی الحال اجازت نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fce5
Bundeskanzlerin Angela Merkel
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

جرمن سربراہ حکومت میرکل کو دنیا کی طاقتور ترین خاتون قرار دیا جاتا ہے اور یورپی یونین میں جرمنی کا کردار بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت بھی ہے اور یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بھی۔ اس پس منظر میں صنعتی ملکوں کے سات کے گروپ کے جرمنی ہی میں ہونے والے آئندہ سربراہی اجلاس سے پہلے جرمن چانسلر کا ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شام کی خانہ جنگی کا حل روس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جی سیون کے علاوہ دیگر اہم کانفرنسوں میں بھی روس کی شرکت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ چانسلر میرکل کے مطابق ایرانی ایٹمی پروگرام سے متعلق تنازعے کے حل کے لیے بھی روس ایک اہم شراکت دار ہے۔ ان کے بقول شام سے کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے میں بھی کامیابی روس ہی کی مدد سے حاصل ہوئی۔

اس انٹرویو میں جرمن چانسلر نے یورپی یونین کے رکن ملک یونان کے مالیاتی بحران پر بھی اظہار خیال کیا۔ انہوں نے اس بارے میں امید ظاہر کی کہ یونان کے ساتھ جاری مذاکرات ’کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر‘ ہوں گے۔

Fernsehinterview der DW mit Bundeskanzlerin Merkel
جرمن چانسلر کا ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شام کی خانہ جنگی کا حل روس کے بغیر ممکن نہیں ہےتصویر: DW/C. Strack

جرمنی میں دنیا کے سات بڑے صنعتی ممالک کا سربراہی اجلاس کل اتوار سات جون سے شروع ہو رہا ہے۔ اس بارے میں دنیا کی طاقتور ترین خاتون کا کہنا تھا کہ فی الحال روس کو جی سیون کے دائرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا جواز پیش کرتے ہوئے چانسلر میرکل نے کہا کہ روس نے حالیہ چند برسوں میں بڑے صنعتی ممالک کے بہت سے خیالات سے ’دوری اختیار‘ کی ہے۔ واضح رہے کہ جی سیون کا نام کچھ عرصہ پہلے تک جی ایٹ تھا اور اس گروپ میں روس بھی شامل تھا لیکن یوکرائن کے بحران کے باعث پابندیاں عائد کرتے ہوئے روس کو اس گروپ سے نکال دیا گیا تھا۔

وبائی امراض کے خلاف بہتر اقدامات

اس انٹرویو میں جرمن چانسلر کا شکوہ کرتے ہوئے یہ بھی کہنا تھا کہ وبائی بیماریوں کی روک تھام کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جا رہے اور کوشش کی جائے گی کہ جنوبی جرمن شہر اَیلماؤ میں ہونے والے جی سیون اجلاس میں اس موضوع پر بھی کوئی پیش رفت ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ افریقہ میں ایبولا وائرس کی وباء پھوٹنے کے بعد بین الاقوامی برادری کا ردعمل ناکافی تھا اور جب ردعمل ظاہر کیا گیا، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

انگیلا میرکل کے مطابق اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما نہیں ہونے چاہییں۔ جی سیون اجلاس کے دوسرے روز کی کارروائی میں ایبولا وائرس سے متاثرہ افریقی ممالک کے رہنما بھی شرکت کریں گے۔ میرکل کا کہنا تھا، ’’ان رہنماؤں کی موجودگی میں ایک مرتبہ پھر یہ سوال لازمی ہو گا کہ صحت سے متعلق مسائل کس قدر اہم ہیں۔‘‘

کل سے شروع ہونے والی جی سیون سمٹ کے بارے میں جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں یونان کے ڈرامائی صورت حال اختیار کر جانے والے قرضوں کے بحران پر زیادہ گفتگو نہیں کی جائے گی۔ تاہم عالمی معیشت پر تبادلہء خیال کرتے ہوئے یورو زون کی مجموعی صورتحال پر نظر ضرور ڈالی جائے گی۔