1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی افواج پر کیمیائی ہتھیاراستعمال کرنے کا الزام

9 اپریل 2020

کیمائی ہتھیاروں کے بین الاقوامی نگراں اداارے سے وابستہ تفتیش کاروں کی ایک ٹیم کا کہنا ہے شامی فضائیہ نے ملک کے مغربی علاقے میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/3ag3a
Syrien Flugzeug Sukhoi Su-22
تصویر: Getty Images/AFP/A. Almohibany

کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے بین الاقوامی ادارے آرگنائزیشن فار دی پریوینشن آف کیمیکل ویپنز(او پی سی ڈبلیو)نے الزام لگایا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کی فوج نے شا م میں ایک مبینہ فوجی کارروائی کے دوران کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔

کیمیائی ہتھیاروں کے بین الاقوامی نگراں ادارے او پی سی ڈبلیوسے وابستہ تفتیش کاروں کا کہنا ہے شامی فضائیہ نے ملک کے مغربی علاقے میں حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔ لیکن روس کی حمایت یافتہ بشارالاسد حکومت نے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے۔

او پی سی ڈبلیو سے وابستہ تفتیش کاروں کی ایک خصوصی ٹیم کا کہنا ہے، ”یہ یقین کرنے کے لیے معقول وجوہات ہیں کہ شامی فضائیہ کے پچاسویں بریگیڈ کے جنگی جہاز سخوئی- 22 اور ہیلی کاپٹر سے شہر پر ایم 4000 بم گرائے گئے جن میں اعصاب شکن سارین گیس تھی، اس کے ساتھ ہی زہریلی کلورین سے بھرے ہوئے سیلنڈروں سے ایک اسپتال کو بھی نشانہ بنایا گیا۔''

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرت اور حما میں واقع فضائیہ کے اڈوں سے باغیوں کے اس وقت زیر قبضہ حما اور الطامانہ شہروں پر کیمیاوی ہتھیاروں سے حملے کئے گئے۔ یہ حملے 24،  25 اور 30 مارچ کو سن 2017 میں کیے گئے تھے۔  

Türkei Edirne Migranten an der Grenze zu Griechenland
شام میں جاری خانہ جنگی میں اب تک ہزاروں لوگ ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: Getty Images/B. Kara

اوپی سی ڈبلیو کی تفتیشی ٹیم میں شامل سانٹیاگو اوناڈے لابورڈے کا کہنا ہے، ’’دفاعی حکمت عملی کے اعتبار اتنے اہم ٹھکانوں پر یہ حملے شامی فوج کی کمان سے وابستہ اعلی حکام کے احکامات کے بغیر نہیں کیے گئے ہوں گے۔‘‘ رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں تقریباﹰ ایک سو افراد متاثر ہوئے تھے۔

اس طرح کے غیر قانونی حملوں کی تفتیش اور اس میں ملوث افراد کا پتہ لگانے کے لیے اوپی سی ڈبلیو نے 2018 میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم  (آئی آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔ اس سے پہلے تک ادارہ صرف اس بات کی تفتیش کرتا تھا کہ آیا کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال ہوا یا نہیں، اس کا کام حملہ آوروں کی نشاندہی کرنا نہیں تھا۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں پہلے بھی بشار الاسد کی فوج پر کیمیاوی ہتھیاروں کے حملوں سے بہت سے لوگوں کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کرتی رہی ہیں۔ شام اور روس کی شدید مخالفت کے باوجود اوپی سی ڈبلیو میں شامل بیشتر ارکان نے شام میں کیمیاوی ہتھیاروں سے حملے کی تفتیش کے لیے بھیجے جانی والی ٹیم کی حمایت کی تھی۔

شام میں روس کی حمایت یافتہ بشار الاسد کی حکومت کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے۔ اوپی سی ڈبلیو کے سربراہ فرنانڈو ایریاز کا کہنا ہے کہ آئی آئی ٹی کوئی عدالتی کمیٹی تو ہے نہیں اس لیے اب یہ اوپی سی ڈبلیو اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل پر منحصر ہے کہ وہ اس بارے میں مزیدکیا مناسب اور ضروری کارروائی کرتے ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس رپورٹ کے حوالے سے نیو یارک میں اقوام متحدہ میں شامی اور روسی مندوبین سے ردعمل جاننے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی جانب سے ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

ص ز/ ج ا (ڈی پی اے/ روئٹرز)       

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید