1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاستدانوں کے خلاف ریفرنسز کی واپسی، تنقید کا طوفان

عبدالستار، اسلام آباد
19 ستمبر 2022

پی ٹی آئی نے مقدمات کی واپسی کے خلاف تنقید کا ایک طوفان برپا کر دیا ہے، جس میں حکمراں اتحاد پر مقدمہ چلانے اور سزا سے بچنے کے لیے نیب قوانین کو تبدیل کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4H46Q
Pakistan | Mian Muhammad Shahbaz Sharif
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

وزیر اعظم شہباز شریف، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز، قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف ریفرنسز واپس کر دیے ہیں۔ کرپشن کے تقریباً 50 ریفرنسز اب تک واپس کیے جا چکے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے خلاف رمضان شوگر مل ریفرنس بھی واپس بھیجے گئے ریفرنسز میں شامل ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی کے خلاف یونیورسل سروسز فنڈ (یو ایس ایف) ریفرنس بھی، جس میں ان پر غیر قانونی تشہیری مہم میں اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام تھا، واپس کر دیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی نے اگست کے مہینے میں قومی احتساب بل میں دوسری ترمیم منظور کی تھی، جس میں نجی لین دین کو نیب کے دائرہ کار سے خارج کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ ترمیمی بل کے تحت نیب کا دائرہ اختیار صرف میگا سکینڈلز کے خلاف کارروائی تک محدود کردیا گیا تھا۔ بل کے مطابق نیب  افسران تفتیش کے دوران کسی شخص کو ہراساں نہیں کریں گے اور وہ تفتیش یا شواہد اکٹھا کرنے سے متعلق اپنے سوالات کو محدود رکھیں گے۔

Pakistan | Imran Khan
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس سے عمران خان کا اینٹی کرپشن بیانیہ مضبوط ہوگا اور انہیں سیاسی فائدہ ہوگا۔ تصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

’یہ نرمی نہیں ڈکیتی ہے‘

پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وزیراعظم  عمران خان کے سابق مشیر برائے فوڈ سکیورٹی جمشید اقبال چیمہ نے اسے سراسر ڈکیتی قرار دیا یے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ نرمی نہیں بلکہ کھلی ڈکیتی ہے۔ گزشتہ برسوں میں 1200 ارب روپے سے زائد کا غبن کیا گیا اور اس میں سے 1100 ارب روپے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور دیگر حکمران اتحاد کے ارکان سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے لوٹے۔‘‘

جمشید اقبال چیمہ کے مطابق یہ پاکستان میں احتساب کی موت ہے: ''ن لیگ اور پیپلز پارٹی سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہیں، اس سے یہ منفی پیغام جائے گا کہ آپ لوٹ سکتے ہیں اور قانون آپ کی حفاظت کرے گا۔‘‘

جمشید اقبال چیمہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت کی اس کارروائی کا مقابلہ کیا جائے گا جسے ایک سازش کے ذریعے اقتدار میں لایا گیا تھا۔

’پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ ہوگا‘

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس سے عمران خان کا اینٹی کرپشن بیانیہ مضبوط ہوگا اور انہیں سیاسی فائدہ ہوگا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار خالد بھٹی کا کہنا ہے کہ عمران خان اس مسئلے کو خوب اچھالیں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومت قوانین میں ایسی تبدیلی کرتی، جس سے شواہد کو سائنسی بنیادوں پر حاصل کیا جاتا اور ملزم کو پوری صفائی کا موقع دیا جاتا۔ اس کے علاوہ ایسے اقدامات کی بھی ضرورت تھی، جس سے احتساب کو شفاف بنایا جاتا لیکن اس طرح ریفرنس واپس لینے سے پی پی پی اور ن لیگ کو نقصان ہوگا اورپی ٹی آئی یہ پروپیگنڈہ کرے گی کہ حکمراں اتحاد نے اپنے کرپشن کو بچایا ہے۔‘‘

’ریفرنسز کی واپسی قانون کے مطابق ہے‘

حکمران اتحاد اس تاثر کو رد کرتا ہے کہ اس سے ن لیگ، پی پی پی یا جے یو آئی ایف کو فائدہ ہوا ہے اور وہ ریفرنسز کی واپسی کو قانونی قرار دیتے ہیں۔ جمعیت علما اسلام کی مرکزی شوری کے رکن محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے نیب کوئی احتساب کا ادارہ نہیں ہے بلکہ انتقام کا ادارہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سیف الرحمان نے بھی اس کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا، پرویز مشرف نے اس کے ذریعے پی پی پی پیٹریاٹ اور ق لیگ بنائی اور عمران خان بھی اس کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ لہٰذا اس میں تبدیلی ضروری تھی۔ جب وہ قانون ہی نہیں رہا تو ریفرنسز کیسے رہے سکتے ہیں۔ اس لیے وہ واپس کیے گئے۔‘‘

Logo National Accountability Bureau (NAB)
قومی احتساب بیورو نے وزیر اعظم شہباز شریف، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز، قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف ریفرنسز واپس کر دیے ہیں۔

’کبھی کوئی الزام ثابت نہیں کیا‘

حکمراں اتحاد کا کہنا ہے کہ نیب نے صرف میڈیا ٹرائل کی اور کبھی بھی سیاست دانوں کے خلاف کچھ ثابت نہیں کیا۔ محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ نیب کے الزامات ہمیشہ بے بنیاد نکلے: ''آصف علی زرداری نے برسوں جیل کاٹی لیکن ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ شاہد خاقان دو برس جیل میں رہے لیکن کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ جتنے بھی ریفرنسز بنے وہ صرف سیاسی بنیادوں پر بنے۔ اس لیے نیب کے اختیارات کم ہونے ہی چاہیے تھے۔‘‘

محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کے اداروں کو وسائل فراہم کرنا چاہییں تاکہ یہ مضبوط ہوں اور کسی ادارے کو کوئی بھی حاکم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے۔

تاہم خالد بھٹی کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ادارے حکومتی کنٹرول میں ہوتے ہیں اور حکومت کے مخالفین یہ الزام لگائیں گے کہ حکومت نے تفتیش میں بے ایمانی کی ہے اور یوں وہ کرپشن کے مقدمات سے بچ گئے۔