1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سکیورٹی ادارے اپنی حد میں رہ کر کام کریں، سپريم کورٹ

بینش جاوید
6 فروری 2019

پاکستانی عدالت عظمی نے سن 2017 کے فیض آباد دھرنے سے متعلق کيس کے بدھ کو سامنے آنے والے فیصلے میں کہا ہے کہ حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے، خفیہ ایجنسیاں اور فوج کا شعبہ تعلقات عامہ اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔

https://p.dw.com/p/3CnZa
Pakistan Oberster Gerichtshof in Islamabad
تصویر: Reuters/C. Firouz

بدھ چھ فروری کو سامنے آنے والے فيض آباد دھرنے سے متعلق کیس کے فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جو ایسا فتویٰ جاری کرے جس سے کسی کو نقصان پہنچے یا کسی کی زندگی کو خطرے لاحق ہو، اس شخص کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قوانين کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔ اس فیصلے میں انٹر سروسز انٹیلیجنس، انٹیليجنس بیورو، ملٹری انٹیليجنس اور پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا گيا ہے، ’’یہ آزادیء اظہار پر پابندی عائد نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ ٹی وی نشریات اور اخبارات کی انتظامیہ یا ان کی ترسیل کے مراحل میں مداخلت کریں۔‘‘ سپریم کورٹ کے مطابق خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے کہ وہ ان سرگرمیوں پر نظر رکھیں جو ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں اور جو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتی ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں وزارت دفاع سميت فوج، نیوی اور ایئر فورس کے سربراہان کو ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے، جنہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہو کر ايک فوجی کے طور پر ليے گئے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔‘‘

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں سياسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (TLP) نے 2017ء میں احتجاجاً مرکزی ہائی وے بلاک کر ديا تھا۔ ٹی ايل پی کے کارکن اس وقت کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر قانون کی جانب سے اس حلف نامے میں تبدیلی کی کوشش کی گئی تھی، جس پر انتخابات میں حصہ لینے والے حلف اٹھاتے ہیں۔ مظاہرین نے اس تبدیلی کو ناموس رسالت سے جوڑ دیا تھا۔ ٹی ايل پی کے مطابق اس حلف نامے میں نرمی اس لیے پیدا کی گئی تاکہ پاکستان کے اقلیتی گروپ احمدیوں کی انتخابات میں شرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔ عدالت نے اس کیس پر سو موٹو ايکشن دھرنے کے باعث ٹریفک کے شدید مسائل کے باعث لیا تھا اور وزرات داخلہ، وزارت دفاع، انٹیلیجنس بیورو اور آئی ایس آئی سے رپورٹ بھی طلب کی تھی۔ اس وقت عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس دھرنے میں موجود رہنماؤں کی جانب سے بہت  نازیبہ الفاظ کا استعمال کیا گیا تھا۔

پاکستان کے ايک نجی ٹيلی وژن چينل سے وابستہ صحافی عبدالقیوم صدیقی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ آئین اور قانون  ميں مسلح افواج اور انٹیليجنس ایجنسیوں  کے کردار کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ سپريم کورٹ کے تازہ فیصلے میں ایسے سکیورٹی اہلکاروں کے نام بھی شامل ہیں، جنہوں نے اس دھرنے سے کوئی کردار ادا کيا۔ اب دیکھنا ہو گا کہ فوج ان کے خلاف کارروائی کرتی ہے یا نہیں۔‘‘ صدیقی کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت جب میڈیا کی آزادی پر قدغنيں لگائی جا رہی ہيں، ایسا فیصلہ آنا مثبت پيش رفت ہے۔ صدیقی کہتے ہیں، ’’یہ دیکھنا ہو گا کہ پہلے ہی دباؤ کا شکار میڈیا سپریم کورٹ کے فیصلے کو کس کس زاویے سے رپورٹ کرتا ہے۔ اس سے بہت کچھ سمجھ آئے گا۔ ماضی میں سپریم کورٹ کے  بہت سے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوا۔‘‘

اس کے برعکس کالم نگار شنیلہ اسکندر سمجھتی ہیں کہ اس فیصلے کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان کا آئین سکيورٹی اداروں کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے منع کرتا ہے۔ اس فیصلے میں عدالت نے ایک مرتبہ پھر یاد کرایا ہے کہ ان کی حدود کیا ہیں۔‘‘ شنیلہ کہتی ہیں کہ 2017ء کا دھرنہ ایک شر انگیز دھرنہ تھا۔ سیاسی پارٹیوں نے بھی اس دھرنے کو اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا اور کئی افراد کے خلاف فتوے جاری کيے گئے۔‘‘

تحریک لبیک پاکستان کے حوالے سے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس نے مذہبی جذبات کو بھڑکایا، نفرت کی آگ جلائی، نازیبہ الفاظ استعمال کیے، تشدد کا سہارا لیا اور  یہ 163.6 ملین روپوں  کے مالی نقصان کا سبب بنی۔

دھرنا ختم: سیاسی رسہ کشی کے لیے مذہب کے استعمال کا ایک اور ثبوت

پاکستانی سیاست میں مذہبی انتہا پسندوں کا بڑھتا ہوا زور

’طاقت کا استعمال عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے‘