سپین میں انتخابات سے قبل ایک سیاسی قتل
7 مارچ 2008ہلاک کئے جانے والے سابق کونسلر‘ Isaias Carrasco‘ کا تعلق سوشلسٹ پارٹی سے تھا۔ایسے پرتشدد واقعات کے لئے ہسپانوی حکومت ہمیشہ ہی علیحدگی پسندوں کی جماعت‘ ETAکو قصوروار ٹھہراتی رہی ہے‘ اور اس بار بھی معاملہ مختلف نہیں رہا۔
اطلاعات کے مطابق‘ کاراسکو کے جسم پر ان کی رہائش گاہ کے باہر ان کی اہلیہ اور چھوٹی بیٹی کی موجودگی میں کئی گولیاں چلائیں گئیں‘ جن کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوگئی۔سابق کونسلر کی ہلاکت کا آنے والے انتخابات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے‘ اس کا صحیح اندازہ لگانا اس وقت انتہائی مشکل ہوگا‘ تاہم کئی عوامی جائزوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکمران جماعت سوشلسٹ پارٹی انتخابات میں جیت حاصل کرکے دوبارہ اقتدار سنبھال سکتی ہے۔
سن دو ہزار چار کے انتخابات میں سوشلسٹ جماعت کو توقعات کے برخلاف‘ حیران کن کامیابی حاصل ہوئی تھی۔اس جماعت کی انتخابی جیت سے تین روز قبل‘ دارالحکومت Madrid میں ٹرینوں پر مشتبہ مسلم عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں کم از کم 191افراد ہلاک ہوگئے تھے۔سن دو ہزار چار کے انتخابات میں سوشلسٹ پارٹی کی کامیابی کے بعد اس جماعت کے راہنما‘ ہوسّے لوئیس رودریگئیس ساپاتیرو‘ ملک کے وزیر اعظم بنے۔
جمعہ کے پرتشّدد واقعے پر ایک پریس کانفرنس میں اپنا ردّ عمل ظاہر کرتے ہوئے‘ ملکی وزیر اعظم ساپاتیرو نے کہا کہ ہسپانوی جمہوریت اس کے بنیادی اصولوں کے خلاف کام کرنے والے عناصر کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔انہوں نے کونسلر کی ہلاکت کے لئے ETAکو ذمہ دار ٹھرایا۔وزیر اعظم نے مزید کہا کہ سابق کونسلر کی ہلاکت کے لئے ذمہ دار افراد کو گرفتار کیا جائے گا اور بعد اذاں قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔وزیر اعظم کو کونسلر کے ہلاک ہونے کی خبر اُس وقت ملی جب وہ انتخابی مہم کے سلسلے میں شہر مالاگا میں‘ اپنے حامیوں کی جانب اپنے ہاتھوں کو ہلا رہے تھے۔ایک سینئیر عہدے دار وزیر اعظم کے نذدیک گئے‘ اور ان کے کانوں میں یہ خبر دی‘ جس کے بعد ان کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا۔
سپین کے وزیر اعظم ساپاتیرو نے علیحدگی پسند جماعت‘ ETA کے ساتھ امن مزاکرات سن دو ہزار چھہ میں اس وقت ختم کئے جب اس جماعت کے ایک مبینہ کار بم حملے میں دو افراد مارے گئے۔گُذشتہ چالیس برسوں سے‘ ETA‘ خودمختاری کے لئے مسلح جدوجہد کررہی ہے اور اس طویل عرصے کے دوران اس جماعت پر اپنے حملوں میں کم از کم 800 افراد کو ہلاک کرنے کا الزام عائد ہے۔
اس مرتبہ سپین کی دونوں ہی بڑی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کا اہم مرکز ملکی معیشت تھی۔اگرچہ گُذشتہ چار برسوں کے دوران اس ملک کی معیشت خاصی مضبوط ہوگئی تاہم ماضی قریب میں اس مضبوطی میں کمزوری کے نشانات بھی نمایاں طور پر نظر آنے لگے۔قدامت پسند اپوزیشن نے اس کمزوری کے لئے حکمران جماعت کو ذمہ دار قرار دیا جبکہ حکومت کے خیال میں معیشت میں یہ گراوٹ عارضی ہے۔