1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سن 2014 کے بعد افغانستان دہشت گردوں کی جنت بن سکتا ہے‘

عابد حسین21 فروری 2014

امریکی کانگریس کے حکم پر اسٹریٹیجیک سٹڈیز کے ایک امریکی ادارے نے افغانستان کے بارے میں مرتب کردہ ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سن 2014 کے بعد افغانستان کی مجموعی صورت حال ابتر اور پریشان کُن ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1BD6U
تصویر: AP

شورش زدہ ملک افغانستان کے بارے میں ایک نئی جائزہ رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ امریکی کانگریس کے حکم پر مشہور امریکی تجزیاتی ادارے سی این اے اسٹریٹیجیک اسٹڈیز (CNA Strategic Studies) نے مرتب کی ہے۔ اس جائزہ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ سن 2014 کے اختتام پر جب بین الاقوامی فوجوں کا انخلا مکمل ہو جائے گا تو افغانستان میں ایک مضبوط سکیورٹی کی حامل حکومت کی عدم موجودگی میں یہ ملک دہشت گردوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔ اس کے لیے امریکی ادارے نے تجویز کیا ہے کہ بڑے بھاری خرچے پر مضبوط افغان سکیورٹی فورسز کا قیام ضروری ہے۔

Afghanischer Präsident Hamid Karzai
افغان صدر حامد کرزئیتصویر: Johannes Eisele/AFP/Getty Images

جمعرات کے روز جاری ہونے والی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا کیا گیا کہ یہ ضروری ہے کہ افغان مشن کے بعد بھی سن 2018 تک وہاں غیر ملکی افواج کے ایک بڑے دستے کی تعیناتی، کابل حکومت سے رابطہ کاری ، بین الاقوامی تربیت کاروں اور مشیر کی افغانستان میں تعیناتی کے نتیجے میں افغانستان کو دہشت گردوں کی جنت بننے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال نازک دور گزر رہی ہے اور امریکا کی افغان جنگ میں شمولیت سے حاصل ہونے والے ممکنہ نتائج کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ سن 2001 میں سابق صدر جارج ڈبلیوبُش نے افغانستان میں امریکی فوج کشی کا عمل شروع کیا تھا۔

افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کا مسلح جنگی آپریشن رواں برس کے اختتام پر ختم ہو رہا ہے لیکن اُس کے بعد وہاں بین الاقوامی فوج کی موجودگی کا معاملہ واضح نہیں ہے۔ صدر حامد کرزئی نے امریکا کے ساتھ باہمی سکیورٹی معاہدے کو اپریل کے صدارتی انتخابات تک التوا میں ڈال رکھا ہے۔ امریکی صدر اوباما یہ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں امریکا انسداد دہشت گردی اور تربیتی مشنز رکھنے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ اُسی صورت میں ممکن ہو گا اگر نئے افغان صدر سکیورٹی معاہدے پر دستخط کر یں گے۔ اس ڈیل پر مذاکراتی عمل صدر حامد کرزئی نے مکمل کیا تھا۔

امریکا کی وفاقی حکومت کی امداد پر اپنے معاملات کو مکمل کرنے والے تجزیاتی ادارے سی این اے اسٹریٹیجیک اسٹڈیز نے کچھ سفارشات بھی پیش کی ہے۔ ان میں سے ایک میں یہ کہا گیا ہے کہ سن 2014 کے بعد افغان فوج اور پولیس میں مجوزہ کمی کے پلان کو ختم کر دیا جائے اور موجودہ تعداد کو برقرار رکھا جائے۔ سن 2012 کی نیٹو سمٹ میں یہ طے پایا تھا کہ بین الاقوامی فوج کے انخلا کے بعد افغان فوج اور پولیس کی مجموعی تعداد 2 لاکھ 28 ہزار 500 تک رکھی جائے گی۔ فوج اور پولیس میں کمی کرنے کی وجہ نیٹو اقوام کے لیڈروں کی وہ خوش فہمی تھی کہ سن 2015کے دوران کابل حکومت کے لیے طالبان عسکریت پسندوں کے خطرے میں بڑی کمی واقع ہو جائے گی۔ امریکی دفاعی تجزیاتی ادارے کے مطابق ایسا ہرگز دکھائی نہیں دیتا کہ اگلے برس طالبان کی مسلح کارروائیوں میں کمی پیدا ہو جائے گی۔