1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ میں کورونا سے متعلقہ ذہنی امراض کے لیے مددگار سروس

حسن کاظمی کراچی
4 مئی 2020

کورونا وائرس کی وباء نے بہت سے نفسیاتی مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔ ایسے مسائل کا سامنا کرنے والوں میں اس وائرس سے متاثرہ افراد اور ان کے قریبی رفقا شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/3bl22
Pakistan Telemedizinisches Zentrum der Regierung in Sindh Dr. Qudsia Tariq
تصویر: DW/Hassan Kazmi

اسی سلسلے میں پاکستان کے صوبے سندھ کے محکمہ بلدیات نے عوام کی ذہنی صحت کی بہتری کے لیے ایک ہیلپ لائن قائم کی ہے، جہاں ماہرین نفسیات کی ایک ٹیم عوام سے بات کرکے انہیں فون پر ہی ذہنی صحت کے بارے میں مدد فراہم کرتی ہے، جسے سائیکو تھراپی بھی کہتے ہیں۔

اس بارے میں محکمہ بلدیات سندھ کے سکریٹری روشن علی شیخ نے ڈی ڈبلیو کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نجی شعبے کے تعاون سے اس ہیلپ لائن کا آغاز کیا ہے اور اس سلسلے میں یونیسیف اور 'بیسٹ پاک یو این ڈی پی‘ کے تعاون سے بالترتیب 6 اور 10 ماہرین نفسیات کی دو مختلف ٹیمیں کام کررہی ہیں، جن میں رواں ہفتے مزید دس 10 ماہرین نفسیات کا اضافہ ہوجائے گا۔

ماہرین نفسیات کی اکثریت خواتین پر مشتمل

روشن علی شیخ نے بتایا کہ ٹیم کے ارکان میں ایک کے سوا تمام ماہرینِ نفسیات خواتین ہیں۔ یہ ماہرین اپنے گھر سے ہی فون کے ذریعے عوام کو مدد فراہم کرتے ہیں۔

روشن علی شیخ نے مزید بتایا، ''جب کوئی بھی 1093 پر مدد کے لیے فون کرتا ہے تو فون آپریٹر اس کا نام، رابطہ نمبر اور تفصیلات ایک ماہرِ نفسیات کو بھیج دیتا ہے۔ ماہرین متاثرہ شخص کو کال کرتے ہیں، اس مقصد لیے ان تمام ماہرینِ نفسیات کو علیحدہ سے خصوصی موبائل فون نمبرز فراہم کیے گئے ہیں۔‘‘

ویب سائٹ اور موبائل ایپ

اس منصوبے کے لیے ایک ویب سائٹ بھی شروع کر دی گئی ہے۔

ویب سائٹ اس لنک میں وزٹ کریں

سکریٹری بلدیات نے مزید بتایا کہ رواں ہفتے اینڈرائڈ فون اور آئی فون پر ایپ بھی موجود ہوگی۔

Pakistan Telemedizinisches Zentrum der Regierung in Sindh
حکومت کا جاری کردہ معلوماتی اشتہارتصویر: DW/Hassan Kazmi

روشن علی شیخ کے مطابق اس منصوبے کا اہم ترین حصہ قرنطینہ مراکز اور ہسپتالوں میں ملٹی میڈیا سیٹ اپ کے ذریعے وہاں کام کرنے والے طبّی عملے کو مدد فراہم کرنا ہے، جو کئی قسم کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہور ہے ہیں۔ ایسے طبّی عملے کے لیے خصوصی ویب سیمینارز کا انعقاد کیا جارہا ہے۔

اب تک کن لوگوں کی مدد کی گئی؟

ہیلپ لائن کی انچارج ڈاکٹر قدسیہ طارق ہیں، جو جامعہ کراچی کے شعبہ نفسیات کی سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے پاس مختلف نوعیت کے کیسز آ رہے ہیں، جن میں زیادہ تر ایسے افراد ہیں جو کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں لیکن وہ یہ حقیقت تسلیم نہیں کر پا رہے۔ ڈاکٹر قدسیہ کہ مطابق ایک وجہ تو معاشرے میں ممکنہ رسوائی کا خوف ہے دوسرا یہ کہ کیا انہیں معاشرہ دوبارہ قبول کرے گا۔

ایک اور کیس اسٹڈی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر قدسیہ نے بتایا، ''قرنطینہ مرکز سے ایک کیس آیا، متاثرہ شخص 43 سال کا مرد تھا جو نو روز سے قرنطینہ میں تھا، اسے یہ وہم لاحق ہوگیا تھا کہ جب وہ باہر جائے گا تو اسے کوئی پہچانے گا ہی نہیں کیوں کہ اس کی شیو کافی بڑھ چکی ہے۔‘‘ یاد رہے کہ قرنطینہ مراکز میں شیونگ بلیڈ یا قینچی وغیرہ مریض کی حفاظت کے پیشِ نظر فراہم نہیں کی جاتی۔ ماہر نفسیات سے گفتگو کے بعد ذہنی دباؤ کے شکار اس مریض کی حالت بہتر ہوئی۔

اسی طرح ایک 37 سالہ خاتون لاک ڈاؤن کے دوران بچوں کے باعث ذہنی دباؤ کا شکار تھیں۔ اس کیس کے بارے میں ڈاکٹر قدسیہ نے بتایا، ''بانو (فرضی نام) نے بتایا کہ بچوں کے مسلسل تنگ کرنے کی وجہ سے نہ تو وہ گھر کا کام کرپا رہی تھیں، یہاں تک کہ کھانے پکانا بھی دشوار تھا اور اسی وجہ سے وہ بہت چڑچڑی بلکہ غصے میں بچوں کا مارنا پیٹنا بھی شروع کردیا تھا۔ ایسے میں انہیں اس ہیلپ لائن کے بارے میں سوشل میڈیا سے معلوم ہوا تو انہوں فون کیا اور اب وہ بہتر محسوس کررہی ہیں۔‘‘

ڈاکٹر قدسیہ کا کہنا ہے کہ ابھی یہ پراجیکٹ ابتدائی مرحلے ہی میں ہے لیکن اس قلیل عرصے میں وہ اور ان کی ٹیم 35 کیسز پر کام کرچکی ہیں اور نتائج بہت حوصلہ افزاء ہیں۔

طبی عملے کو بھی نفسیاتی مدد کی ضرورت

ڈاکٹر قدسیہ طارق نے کہا کہ ایک اہم مسئلہ قرنطینہ اور ہسپتالوں میں موجود طبی عملے کی ذہنی صحت بھی ہے۔ انہوں نے بتایا، ''اکثر مریض جن کا ٹیسٹ مثبت آجائے تو وہ طبی عملے سے تعاون کرنا بند کردیتے ہیں، ایسے میں ان کی مسلسل ٹیسٹنگ کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے اور پھر طبی عملہ یہ سوچتا ہے کہ ہم تو اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر یہاں کام کررہے ہیں تو یہ مریض ہم سے کیوں بدتمیزی کررہا ہے۔ ہم مریضوں کا سمجھاتے ہیں کہ اگر وہ چیخیں چلائیں گے یا تعاون نہیں کریں گے تو ان کا علاج نہیں ہوسکے گا یا پھر انہیں زیادہ دن قرنطینہ میں رہنا ہوگا اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ عملے سے تعاون کریں۔ اس سیشن کے بھی اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔‘‘

اس ہیلپ لائن پروگرام کے کے فوکل پرسن خرم ارسلان ہیں جنہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابھی بنیادی طور پر آزمائشی طور پر کام کیا جارہا ہے اور اس کے اچھے نتائج مل رہے ہیں۔ اس ہیلپ لائن کا باقاعدہ آغاز آئندہ چند روز میں ہوجائے گا۔

خرم ارسلان نے بتایا کہ ہیلپ لائن پر آئندہ کچھ روز میں ایک رضاکار پروگرام کے تحت 60 ماہرینِ نفسیات کی خدمات حاصل کی جا رہی ہے۔

اسمارٹ فون ایپ کے بارے میں انہوں نے بتایا، ''ایپ تیار کرکے بھیجی جاچکی ہے اور اب اینڈرائڈ اور آئی او ایس کی جانب سے اس کے اجراء کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ حکومت کا ارادہ ہے کہ جلد ہی اس ہیلپ لائن پر زچہ خواتین کے لیے بھی مفت مشورے کی سہولت میسر ہوگی۔‘‘

ٹرمپ کے ملک ميں پاکستانی نژاد ڈاکٹر ہيرو قرار