1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سندھ میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کرنے والا شخص نذر آتش‘

22 دسمبر 2012

پاکستان میں پرہجوم مظاہرین نے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی مبینہ بے حرمتی کرنے والے شخص کو تھانے سے باہر نکال کر ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش کو نذر آتش کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/177s7
فائل فوٹوتصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

بتایا جارہا ہے کہ یہ واقعہ صوبہء سندھ کے ضلع دادو میں پیش آیا ہے۔ دادو کے سیتا نامی گاؤں کے مولوی میمن کے مطابق قرآن کی مبینہ بے حرمتی کرنے والا شخص مسافر تھا اور جمعرات کی شب گزارنے کے لیے مسجد میں رکا تھا۔ مولوی میمن کے مطابق اگلی صبح مسجد سے قرآن کے پھٹے ہوئے اوراق ملے۔ ’’وہ پوری رات مسجد میں اکیلا تھا، وہاں کوئی اور نہیں تھا جو یہ گھناونی حرکت کرتا۔‘‘

پولیس ذرائع کے مطابق ملزم سرائیکی زبان میں بات کر رہا تھا اور اس کا ذہنی توازن درست نہیں لگ رہا تھا۔ مقامی ذرائع کے مطابق دیہاتیوں نے اس شخص کو گھیر کر مارا پیٹا اور پھر پولیس کے حوالے کر دیا۔ کچھ گھنٹوں کے بعد قریب 200 مشتعل افراد نے تھانے پر دھاوا بول کر اس شخص کو اپنے قابو میں کر لیا اور پھر اسے مار ڈالا۔

Blasphemie Gesetz in Pakistan FLASH Galerie
سابق وزیر شہباز بھٹی آسیہ بی بی کے اہل خانہ کے ہمراہ، فائل فوٹوتصویر: AP

ان افراد نے پولیس سے سرکاری اسلحہ بھی چین لیا تھا۔ دادو کے پولیس سپرانٹینڈنٹ عثمان غنی کے بقول ان افراد نے ملزم کو نذر آتش کر ڈالا۔ ان کے مطابق 30 افراد کو اقدام قتل اور سات پولیس اہلکاروں کو فرائض سے غفلت برتنے کے الزام پر حراست میں لے لیا گیا ہے۔

سینٹر آف ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے اعداد و شمار کے مطابق 1990ء سے اب تک پاکستان میں 50 سے زائد افراد توہین مذہب کے الزام پر ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد افراد پر مذہب کی توہین کے الزامات لگے ہیں۔ پاکستان میں توہین مذہب کی سزا موت ہے تاہم اس سلسلے میں قوانین کو قدرے مبہم خیال کیا جاتا ہے۔

روئٹرز کے مطابق وکلاء بھی عدالتی کارروائی کے دوران توہین مذہب سے متعلق شواہد نہیں دہراتے کہ کہیں ان پر ہی توہین مذہب کا مقدمہ قائم نہ ہوجائے۔ ایسے واقعات بھی رپورٹ کیے گئے ہیں جب ملزم اور اس پر الزام لگانے والے کے مابین مختلف قسم کے تنازعات الزام کا سبب بنے ہوں۔

Blasphemie Gesetz in Pakistan FLASH Galerie
سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر توہین مذہب کی ایک ملزمہ آسیہ بی بی کے ہمراہ، فائل فوٹوتصویر: AP

حال ہی میں رمشا مسیح نامی ایک خاتون کا معاملہ عالمی سطح پر میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا تھا۔ یہ مقدمہ بعد میں ان دلائل کی بنیاد پر خارج کیا گیا کہ رمشا مسیح کے خاندان کو علاقے سے نکالنے کے لیے ڈھونگ رچایا گیا تھا۔ پاکستان کے ایک سابق اقلیتی وفاقی وزیر شہباز بھٹی اور صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر دونوں توہین مذہب کے اس قانون میں ترمیم چاہتے تھے اور دونوں کو ہی قتل کر دیا گیا تھا۔

(sks/ at (Reuters