سلامتی کونسل: افغان طالبان کے نام القاعدہ سے علیٰحدہ کردیے گئے
18 جون 2011اس سے قبل سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کے ذریعے دونوں کو ایک ہی بلیک لسٹ میں رکھا گیا تھا۔ اس سلسلے میں سلامتی کونسل میں جمعہ کے روز دو قرار دادیں 1988 اور 1989 متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔ اس عمل کو طالبان کے لیے ایک اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس کے ذریعے انہیں ہتھیار پھینک کر قیام امن کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
افغان حکومت نے ایسے طالبان کو قومی دھارے میں دوبارہ شامل کرنے کے لیے گزشتہ سال سے ایک شوریٰ قائم کر رکھی ہے جو القاعدہ سے ناطہ توڑنے اور دہشت گردانہ کارروائیاں ترک کرنے پر تیار ہوں۔ سلامتی کونسل کی بلیک لسٹ سے طالبان کے ناموں کا اخراج اس معاملے میں انتہائی کلیدی اہمیت کا حامل معاملہ خیال کیا جا رہا ہے۔
طالبان کے حوالے سے تشکیل دی گئی نئی فہرست میں ناموں کے اندراج اور اخراج پر افغان حکومت کو اختیارات حاصل ہوگئے ہیں۔ اس فہرست میں ان افراد کے نام ڈالے جائیں گے جو ’افغانستان میں امن، سلامتی اور استحکام‘ کے لیے خطرہ ہیں۔ اگر افغان محتسب کسی فرد کا نام اس فہرست میں سے نکالنا چاہے تو یہ نام فہرست میں برقرار رکھنے کے لیے سلامتی کونسل سے متفقہ طور پر قرار داد کی منظوری درکار ہوگی۔
اس وقت بلیک لسٹ میں 135 طالبان رہنماوں کے نام شامل ہیں۔ اس سے قبل طالبان اور القاعدہ کی مشترکہ لسٹ میں 254 افراد کے نام تھے۔
ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ سلامتی کونسل میں 20 سابق طالبان کمانڈروں کو اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے خارج کرنے کا سوچا جا رہا ہے۔ کابل حکومت نے اس سلسلے میں مبینہ طور پر 50 طالبان کمانڈروں کے نام تجویز کیے ہیں تاہم کاغذی کارروائی نامکمل ہونے کے سبب بقیہ 30 افراد کا معاملہ جولائی کے وسط تک التواء میں رکھا گیا ہے۔ ان میں طالبان کی ’مذہبی پولیس (امر بالمعروف و نہی عن المنکر)‘ کے سربراہ محمد کلام الدین بھی شامل ہیں۔
علیٰحدہ فہرستوں کا قیام القاعدہ کے دہشت گردوں اور طالبان میں تفریق ظاہر کرتی ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مندوب سوزن رائس کے بقول یہ افغان آئین کی پاسداری کرنے والے طالبان کے لیے اچھے مستقبل کی نوید ہے۔ اقوام متحدہ میں جرمنی کے سفیر اور سلامتی کونسل میں انسداد دہشت گردی سے متعلقہ کمیٹی کے سربراہ پیٹر ویٹش کا کہنا ہے کہ ان قراردادوں سے افغان حکومت کی جانب سے امن و مصالحت کی کوششوں پر اعتماد اور ان کی حمایت کا اظہار ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے جولائی 2011ء میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا عمل شروع کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس پہلے ہی عندیہ دے چکے ہیں کہ رواں سال موسم سرما میں طالبان کے ساتھ سیاسی نوعیت کے مذاکرات کا آغاز ہوسکتا ہے۔ حالیہ قراردادوں کی منظوری کے موقع پر بھارت اور روس کی جانب سے اس بات پر زور دیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی جنگ کمزور نہیں پڑنی چاہیے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عابد حسین