سعودی عرب کی سلامتی کونسل سے شکایت، رکنیت رد کر دی
18 اکتوبر 2013سعودی حکومت نے آج جمعے کے روز اپنے فیصلے کی وجہ یہ بتائی کہ یہ عالمی ادارہ اپنی کارکردگی میں دوہرے معیارات اپنائے ہوئے ہے۔ ریاض میں ملکی وزارت خارجہ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے سرکاری نیوز ایجنسی SPA نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے دوہرے معیارات کی وجہ سے اس عالمی ادارے کے لیے تنازعات کو حل کرانا اور جنگوں کو ختم کرانا مشکل ہو گیا ہے۔
وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق سلامتی کونسل میں دوہرے معیارات اور طریقہء کار کی وجہ سے سعودی عرب کونسل کے ایک رکن ملک کے طور پر عالمی امن کے لیے اپنے فرائض اچھی طرح انجام نہیں دے سکتا۔
ریاض میں وزارت خارجہ کے مطابق سعودی عرب اس وقت تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنی نشست پر براجمان نہیں ہو گا جب تک اس عالمی ادارے میں اصلاحات متعارف نہیں کرائی جاتیں۔ لیکن اس بیان میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ سعودی حکومت عالمی ادارے میں کس طرح کی اصلاحات کی خواہش مند ہے۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل اس بارے میں واضح تقسیم کا شکار ہے کہ اسے شام میں خونریز خانہ جنگی کے مسئلے سے کیسے نمٹنا چاہیے۔ مغربی طاقتوں کی پوری کوشش ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مزید سخت پابندیاں عائد کی جائیں۔
لیکن روس اس کی مخالفت کر رہا ہے اور ہر بار شام کے خلاف قراردادوں کو ویٹوکر دیتا ہے۔ شام کی خانہ جنگی میں سعودی حکومت صدر اسد کے مخالف باغیوں کی حمایت کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پندرہ رکن ملکوں میں سے پانچ مستقل رکن ریاستیں ہیں، جنہیں ویٹو کا حق حاصل ہے۔ یہ ملک امریکا، برطانیہ، فرانس، روس اور چین ہیں۔ باقی دس ملک سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن ہیں، جن کا انتخاب محدود عرصے کے لیے کیا جاتا ہے۔
سعودی عرب کو پہلی مرتبہ کل جمعرات کی رات چار دیگر ملکوں کے ساتھ سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب کیا گیا تھا۔باقی چار ممالک چاڈ، چلی، لیتھوانیا اور نائجیریا تھے۔
ان ملکوں کو اگلے سال یکم جنوری سے سلامتی کونسل میں آذربائیجان، گوئٹے مالا، مراکش، پاکستان اور ٹوگو کی جگہ لینا ہے۔ سعودی عرب کو سکیورٹی کونسل میں پاکستان کی جگہ لینا تھی۔ لیکن ریاض حکومت کے انکار کے بعد فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ اب سلامتی کونسل میں سعودی عرب کی نشست کس ملک کو کب ملے گی۔