1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں پانچ پاکستانیوں کو سزائے موت دے دی گئی

8 مارچ 2024

سعودی عرب میں ایک بنگلہ دیشی گارڈ کے قتل کے الزام میں پانچ پاکستانیوں کو موت کی سزا دے دی گئی۔ قصورواروں کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا اور پھر اعلی عدالتوں نے بھی سزا کو برقرار رکھا، جس کے بعد سزا پر عمل ہوا۔

https://p.dw.com/p/4dICo
علامتی تصویر
سعودی عرب اپنے سخت قانونی نظام کے لیے جانا جاتا ہے اور عموماً قتل، دہشت گردانہ حملوں اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے جرائم کے لیے سزائے موت دی جاتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/A. Abdullah

مشرق وسطی کے ایک معروف میڈیا ادارے 'گلف نیوز' نے سعودی عرب کے حکام کے حوالے سے یہ اطلاع دی ہے کہ رواں ہفتے مملکت میں پانچ پاکستانیوں کو موت کی سزا دی گئی۔ جن افراد کے سر قلم کیے گئے، ان پر ایک کمپنی پر دھاوا بولنے کے دوران ایک گارڈ کو قتل کرنے کا الزام تھا۔

 اطلاعات کے مطابق موت کی سزا پر عمل گزشتہ منگل کے روز مسلمانوں کے مقدس شہر مکہ میں ہوا۔

سعودی عرب میں پانچ افراد کی سزائے موت پر ایک ساتھ عمل درآمد

سعودی عرب میں قتل اور دہشت گردانہ حملوں کے ساتھ ہی منشیات کی اسمگلنگ جیسے جرائم میں سزائے موت کا اطلاق ہوتا ہے۔ مملکت میں ہر برس اس طرح کے جرائم سے وابستہ درجنوں افراد کو موت کی سزا دی جاتی ہے۔

سعودی عرب: سزائے موت پر عمل درآمد سے اصلاحات کا عمل مشکوک

اس کیس کی مزید تفصیلات کیا ہیں؟

گلف نیوز نے سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ''قصوروار پاکستانی شہریوں نے نجی شعبے کی ایک فرم پر حملہ کیا تھا اور اس دوران انہوں نے کمپنی کے دو محافظوں کو باندھ دیا اور ان کے ساتھ مار پیٹ کی، جس میں سے ایک بنگلہ دیشی گارڈ کی موت ہو گئی'' تھی۔

سعودی عرب، ایک ہی دن میں 81 افراد کو پھانسی دے دی گئی

وزارت داخلہ کے مطابق اس معاملے کی تفتیش کے بعد پانچوں ملزمان کو ایک عدالت کے سامنے پیش کیا گیا، جس نے انہیں قصوروار قرار دیتے ہوئے موت کی سزا سنائی۔

ذیلی عدالت کے اس فیصلے کو بعد میں اپیل عدالت اور پھر سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ پھر ایک شاہی حکم کے ذریعے ان کی سزائے موت کو منظوری دی گئی، جس سے ان کی موت کی سزا حتمی بن گئی۔ منگل کے روز مکہ کے شہر میں ان کی موت کی سزاؤں پر عمل ہوا۔

کیا موت کی سزا کو ختم کر دیا جانا چاہیے؟

سعودی عرب میں موت کی سزائیں

سعودی عرب اپنے سخت قانونی نظام کے لیے جانا جاتا ہے اور عموماً قتل، دہشت گردانہ حملوں اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے جرائم کے لیے سزائے موت دی جاتی ہے۔ ہر برس اس طرح کے جرائم میں ملوث درجنوں افراد کا سر قلم کیا جاتا ہے، جس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں نکتہ چینی بھی کرتی رہی ہیں۔

رائف بداوی کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرنے والے 9 سال

موت کی سزا پر عمل کا یہ تازہ واقعہ جنوری میں ایک حالیہ ایسی ہی سزا کے بعد پیش آیا ہے، جس میں چار ایتھوپیائی تارکین وطن کو سوڈانی شہری کے قتل کے جرم میں موت کی سزا دی گئی تھی۔

سعودی عرب میں کئی افراد کو موت کی سزا دینے کی تیاریاں

البتہ حکام نے اس وقت اس قتل کی محرکات کو ظاہر نہیں کیا تھا آخر سوڈانی شہری کو کیوں قتل کیا گیا۔ اسی طرح گزشتہ دسمبر میں بھی ایک اور معاملے میں دو بنگلہ دیشی تارکین وطن کو موت کی سزا دی گئی تھی۔

ان دونوں بنگلہ دیشی شہریوں نے مالی تنازعے کے سبب ایک بھارتی شہری کو قتل کر دیا تھا اور اسے مارنے کے لیے کیڑے مار دوا کو بطور ہتھیار استعمال کیا تھا۔

سعودی عرب میں جس انداز سے سزائے موت پر عمل ہوتا ہے، اس پر بین الاقوامی توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ہی تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔

 انسانی حقوق کی تنظیمیں ان قانونی کارروائیوں، جن کے تحت موت جیسی سخت سزائیں دی جاتی ہیں، کی شفافیت اور منصفانہ ہونے کے بارے میں اکثر تشویش کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)