1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہسعودی عرب

سعودی عرب میں فلپائنی مزدوروں کی مشکلات

8 نومبر 2022

فلپائن نے سعودی عرب جانے والی گھریلو ملازماؤں سمیت تعمیراتی شعبوں میں کام کرنے والے مزدوروں پر عائد پابندی اٹھا لی ہے۔ سعودی عرب میں فلپائنی خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات سامنے آنے کے بعد یہ پابندی عائد کی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/4JCtS
فلپائن نے سعودی عرب جانے والی گھریلو ملازماؤں سمیت تعمیراتی شعبوں میں کام کرنے والے مزدوروں پر عائد پابندی اٹھا لی ہے
فلپائن نے سعودی عرب جانے والی گھریلو ملازماؤں سمیت تعمیراتی شعبوں میں کام کرنے والے مزدوروں پر عائد پابندی اٹھا لی ہےتصویر: JAY DIRECTO/AFP/Getty Images

ایک سال قبل بدسلوکی کے متعدد واقعات منظر عام پر آنے کے بعد فلپائنی حکام نے تیل کی دولت سے مالا مال سلطنت سعودی عرب میں ملکی کارکن بھیجنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ تب ہزاروں فلپائنی تعمیراتی کارکنوں کو اجرت کی عدم ادائیگی کا مسئلہ بھی درپیش تھا۔

ماضی میں فلپائنی خادماؤں کی جانب سے ایسی کئی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر جاری کی گئی تھیں، جن میں سعودی مردوں پر جنسی زیادتی کے ساتھ ساتھ اور ایسی گھریلو خادماؤں کو تشدد کا نشانہ بنانے جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ فلپائنی خواتین کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب میں ملازمت کرتی ہے۔

سعودی عرب: ملک بدری سے قبل حراستی مراکز میں تارکین وطن پر کیا بیتتی ہے؟

فلپائن میں مہاجر مزدوروں کے حوالے سے ایک نیا محکمہ قائم کیا گیا ہے اور سوزن اوپل اس کی نئی سربراہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ مہینوں کی بات چیت کے بعد اضافی حفاظتی اقدامات کے حوالے سے اتفاق کر لیا گیا ہے۔ اب ملازمت کے ایک معیاری معاہدے کو اپنایا جائے گا، جو ملازمین کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر انشورنس کوریج فراہم کرتا ہے اور کارکنوں کو بدسلوکی کی صورت میں آجروں کو تبدیل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

کام کے حالات میں بہتری

 سوزن اوپل کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''ملازمت کے نئے معاہدےکارکنوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کریں گے۔ ہمارے کارکن اب دنیا کی سب سے بڑی لیبر منڈیوں میں سے ایک میں اپنے لیے زیادہ فائدہ مند روزگار تلاش کر سکیں گے۔‘‘

کورونا وباء سے پہلے سن 2019ء تک سعودی عرب میں ملازمتیں کرنے والے فلپائنی باشندوں کی تعداد تقریبا ایک لاکھ نوے ہزار تھی۔ اس کے علاوہ فلپائنی کارکنوں سب سے بڑی تعداد امریکہ، سنگاپور، جاپان، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ میں ہے۔

’سعودی فرسٹ‘ غیر ملکی مزدور طبقہ ملازمت کے لیے پریشان

اوپل نے مزید کہا کہ سعودی حکام فلپائنی ورکرز کی تنخواہوں کے مسئلے کا مشترکہ جائزہ لینے کے لیے اس ماہ فلپائن کا دورہ کریں گے۔ اس دورے میں سن 2016 کے بعد سے تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والے  ہزاروں فلپائنی کارکنوں کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی شکایات پر دوبارہ بات چیت شروع ہو گی۔

بیرون ملک کام کرنے والے فلپائنی باشندے

فلپائن کی مجموعی آبادی تقریبا 110 ملین ہے اور اس کا ہر دسواں شہری بیرون ملک ملازمت کرتا ہے۔ ان کی طرف سے اپنے ملک بھیجی جانے والی رقوم ایک عرصے سے اس ملک کی معیشت کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔ کورونا کے بعد سے اس ملک کے معاشی حالات مشکلات کا شکار ہیں اور ایسے میں گزشتہ برس ان کارکنوں کی جانب سے 31 ارب ڈالر اپنے ملک بھیجے گئے تھے۔

تاہم فلپائنی ورکر اس کی منفی قمیت بھی ادا کر رہے ہیں۔ بیرون ملک جانے والے ورکروں کا تعلق غریب خاندانوں سے ہوتا ہے جبکہ اکثر ان کے استحصال اور ان کے ساتھ  ہونے والی بدسلوکی کی رپورٹیں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر واقعات فلپائنی خادماؤں کے ساتھ پیش آتے ہیں، جن میں انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے واقعات اکثر فلپائن میں احتجاجی مظاہروں کا باعث بنتے ہیں۔ فلپائنی حکام کو شدید دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ دنیا بھر میں کام کرنے والے ملکی ورکروں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔

فلپائنی حکومت سے مسلسل ایسے مطالبات بھی کیے جاتے ہیں کہ وہ ملکی حالات  کو بہتر بنائیں تاکہ کسی کو بیرون ملک جا کر کمانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ 

ا ا / ش ح ( اے پی)