1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں انتہا پسندی بڑھتی ہوئی

افسر اعوان7 جولائی 2015

شام اور عراق میں جاری خانہ جنگی اور یمن میں سعودی سربراہی میں اتحادی ممالک کی جانب سے جاری جنگی کارروائیوں سے نہ صرف خلیج کا پورا خطہ متاثر ہو رہا ہے بلکہ خود سعودی عرب کے اندر بھی شدت پسندی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fu85
تصویر: Mohammed Huwais/Getty Images

سعودی دارالحکومت ریاض کے جنوب میں واقع الحائر جیل اور اسی طرح کی دیگر سعودی جیلوں میں گزشتہ برس تک قیدیوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی تھی کیونکہ دہشت گرد تنظیم سے تعلق کے سلسلے میں جن لوگوں کو گرفت‍ار کیا گیا تھا وہ بتدریج رہا ہو رہے تھے۔ تاہم عراق اور شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث جسے سعودی شہری شیعہ حکومتوں کی طرف سے سُنی مسلمانوں کے خلاف جبر تصور کرتے ہیں، سنی اکثریت والے ملک سعودی عرب کے عوام میں غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ ان حالات میں سعودی نوجوانوں میں اسلحہ حاصل کرنے کی تگ ودو میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے سعودی وزارت داخلہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ رواں مارچ تک قریب 2300 سعودی شام جا کر اسلامک اسٹیٹ اور النصرة فرنٹ جیسی شدت پسند تنظیموں میں شامل ہو چکے تھے۔

حالیہ مہینوں کے دوران سعودی سر زمین پر ہی سنی عسکریت پسندوں کی جانب سے ملک کی شیعہ اقلیت کے خلاف شدت پسندانہ حملوں کے خطرات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ سعودی عرب کے مشرقی حصے میں رواں برس مئی میں شیعہ مساجد پر کیے جانے والے دو دہشت گردانہ حملوں میں 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

سعودی جیلوں میں نومبر 2013ء میں قیدیوں کی تعداد 2289 تھی جو 2010ء کے مقابلے میں 60 فیصد کم تھی۔ تاہم الحائر جیل کے ڈائریکٹر کرنل محمد ابو سلمان کے مطابق اس وقت ان قیدیوں کی تعداد بڑھ کر 4209 تک پہنچ چکی ہے۔

سعودی نوجوانوں میں اسلحہ حاصل کرنے کی تگ ودو میں اضافہ دیکھا گیا ہے
سعودی نوجوانوں میں اسلحہ حاصل کرنے کی تگ ودو میں اضافہ دیکھا گیا ہےتصویر: AP

سعودی حکومت ویسے تو شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف جاری تحریک کی حمایت کرتی ہے تاہم بعض شامی اپوزیشن گروپوں کو وہ اپنی قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ تصور کرتی ہے۔ اسی باعث سعودی عرب کے ایسے شہریوں کو سزائیں سنائی گئی ہیں جو اپنے طور پر شام میں جا کر شدت پسند تنظیموں کے ساتھ لڑتے رہے ہیں۔ الحائر کی جیل میں موجود بہت سے نوجوان قیدیوں کے مطابق وہ شام کے حالات سے متعلق نیوز رپورٹس دیکھنے اور سوشل میڈیا پر موجود مواد سے متاثر ہونے کے بعد شام کا سفر کیا تھا۔

سعودی وزارت داخلہ کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے والے ایک سکیورٹی تجزیہ کار مصطفیٰ الانی کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کے پاس اس طرح سے اپنے ارکان کا نیٹ ورک موجود نہیں ہے جیسا ایک دہائی قبل القاعدہ کے پاس ہوا کرتا تھا۔ الانی کے مطابق اسلامک اسٹیٹ مئی میں کیے جانے والے بم حملوں کی طرح دھماکوں کی منصوبہ بندی کرتی ہے اور پھر سعودی عرب میں موجود اپنے حامیوں اور ہمدردی رکھنے والوں کو استعمال کرتی ہے۔ وہ ایسے لوگوں سے جدید ذرائع سے رابطہ رکھتی ہے اور سعودی عرب میں انہیں تمام تر سہولیات بھی مہیا کیے جاتے ہیں۔ اس طرح سلامتی کے ادراروں کے پاس اس بات کے کم امکانات ہوتے ہیں کہ وہ پورے گروپ تک پہنچ سکے اور اس کا خاتمہ کر سکے۔