سعودی عرب: مناہل العتیبی کو 11 برس قید کی سزا
1 مئی 2024انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور برطانیہ میں قائم 'اے ایل کیو ایس ٹی‘ کے مطابق رواں برس جنوری کے دوران انسداد دہشت گردی کی ایک خصوصی فوجداری عدالت میں مناہل العتیبی کے خلاف مقدمے کا آغاز کیا گیا تھا۔
اب ریاض حکومت نے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں کی ایک درخواست کا رسمی جواب دیتے ہوئے بتایا ہے کہ العتیبی کو ''دہشت گردی کے جرائم‘‘ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزا سنائی گئی ہے۔
انسانی حقوق کے دونوں گروپوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ العتیبی پر عائد کیے جانے والے الزامات ''لباس کے انتخاب‘‘ کے حوالے سے ہیں اور انہوں نے سوشل میڈیا پر ''مردانہ سرپرستی کے نظام‘‘ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ سعودی عرب میں اب بھی تمام بڑے فیصلوں کے لیے کسی محرم یا مرد رشتہ دار کی رضامندی کی ضرورت ہوتی ہے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دور میں''مردانہ سرپرستی کے نظام‘‘ کے کچھ قوانین میں تو نرمی لائی گئی ہے لیکن بحیثیت مجموعی یہ قانون اپنی جگہ برقرار ہے۔
انسانی حقوق کے گروہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ نومبر 2022 میں گرفتاری کے بعد العتیبی کو ریاض کی جیل میں جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
سعودی عرب کی پہلی بار ’مس یونیورس‘ مقابلے میں ممکنہ شرکت
گزشتہ برس اپریل تک تقریباً پانچ ماہ کے لیے العتیبی جبری طور پر لاپتہ رہیں۔ اپریل میں ہی العتیبی نے اپنے اہل خانہ سے رابطہ کیا اور کہا کہ انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے کہا کہ جسمانی تشدد کے نتیجے میں العتیبی کی ایک ٹانگ بھی ٹوٹ گئی تھی اور انہیں صحت کی دیکھ بھال سے بھی محروم رکھا گیا تھا۔
سن 2017 میں ولی عہد بننے کے بعد سے محمد بن سلمان نے قدامت پسند مملکت میں اقتصادی اور سماجی اصلاحات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تاہم یہ مملکت اپنے ناقدین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی عہدیدار اور سعودی عرب کے امور کی نمائندہ بِسان فقیہ نے اس سزا کو ''ایک خوفناک اور ظالمانہ ناانصافی‘‘ قرار دیا ہے۔
ا ا / ش ر (ڈی پی اے، روئٹرز)