سعودی عرب سے فرار ہونے والی رھف القنون کی زندگی اب کیسی ہے
28 فروری 202019 سالہ رھف نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا، ''میری زندگی میں سب سے بڑی تبدیلی ۔۔۔ کالی چادریں پہننے اور مردوں کی اجارہ داری سے آزاد خاتون ہونا ہے۔‘‘
رھف نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں اپنا تعارف ایک لبرل، فیمینسٹ، سابق مسلم اور ایک آزاد سعودی عورت کے طور پر کرایا ہے۔
رھف محمد القنون سعودی عرب میں اپنے اہل خانہ کی طرف سے مبینہ بدسلوکی اور جبری شادی کے منصوبے سے فرار ہو کر جنوری 2019ء میں آسٹریلیا جانا چاہتی تھیں مگر انہیں تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں حکام نے روک لیا تھا۔ اس کی وجہ ان کے پاس کوئی سفری دستاویزات نہ ہونا تھی کیونکہ بنکاک میں سعودی اہلکاروں نے مبینہ طور پر ان کا پاسپورٹ زبردستی ان سے لے لیا تھا۔ شروع میں تھائی حکام نے انہیں ملک بدر کر کے واپس سعودی عرب بھیجنے کا بھی سوچا لیکن اس امکان کی انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی طرف سے شدید مخالفت کی جانے لگی تھی۔ جس کے بعد گزشتہ برس جنوری میں کینیڈا نے رھف محمد القنون کو پناہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
کینیڈا کے سی بی سی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے رھف نے بتایا تھا کہ ان کے گھر والوں نے محض اس وجہ سے انہيں چھ ماہ تک قید رکھا کيونکہ انہوں نے اپنے بال کاٹ کر چھوٹے کر لیے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہيں اکثر مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا تھا، خاص طور پر ان کے بھائی اور والدہ کی طرف سے۔ رھف کے مطابق کئی مرتبہ تو وہ خون و خون ہو جاتی تھیں۔ رھف کے بقول انہيں کینیڈا میں بھی دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔
ا ب ا / ع س (خبر رساں ادارے)