سری لنکا: نجی اداروں کو سرکاری تحویل میں لینے کا قانون
14 نومبر 2011ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ ان اقدامات سے ملک میں آمرانہ طرز حکومت پروان چڑھے گی۔ سری لنکا میں بڑی اپوزیشن جماعت یونائیٹد نیشنل پارٹی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ اس متنازعہ قانون کے اطلاق سے نہ صرف سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ دہائیوں سے نسلی جنگ کے شکار اس ملک میں دیگر اصلاحات کا عمل بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ پارٹی کے مرکزی رہنما کارو جے سوریا نے کہا کہ کوئی بھی غیر ملکی سرمایہ کار اس صورتحال میں سرمایہ کاری کا نہیں سوچے گا کیونکہ اسے یہ اندیشہ لاحق ہو گا کہ اس کے کاروبار پر کسی بھی وقت قبضہ کیا جا سکتا ہے۔
اس نئے قانون کے تحت حکومت نے سرکاری تحویل میں لینے کے لیے 37 اداروں کی نشاندہی کی ہے۔ ان میں حزب اختلاف کی حمایت کرنے والے کاروباری افراد کے ادارے بھی شامل ہیں۔ اس اقدام نے جاپان ، امریکہ اور سنگاپور کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کو بھی شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے، تاہم حکومت ابھی تک یہ واضح نہیں کر سکی ہے کہ کس طرح ان کے نقصان کی تلافی کی جائے گی۔
پارلیمنٹ سے باقاعدہ منظوری کے لیے کرائی جانے والی رائے شماری کے دوران اس بل کے حق میں 122 جبکہ مخالفت میں 46 ووٹ ڈالے گئے۔ بل پر پارلیمانی اسپیکرچمال راجے پاکسے کی جانب سے جمعے کے روز دستخط کیے جانے کے بعد باقاعدہ طور پر اسے قانون کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ سری لنکن صدر مہندرا راجا پاکسے ، جن کے پاس وزیر خزانہ کا چارج بھی ہے، انہوں نے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل میں صرف ان اداروں کو شامل کیا گیا ہے، جن کی کارکردگی تمام سرکاری مراعات حاصل ہونے کے باوجود تسلی بخش نہیں رہی ہے۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: عاطف توقیر