'سب کچھ پہلے سے طے ہے'
16 جولائی 2008دوسری جانب گزشتہ ویک اینڈ پر امریکہ کے جواٴنٹ چیف آف سٹاف ایڈمرل Michael Mullen نے اسلام آباد کےغیر متوقع دورے پر ایک بار پھر پاکستانی فوج پر دباٴو بنانے کی کوشش کی۔
ایڈمرل نے پاک افواج پر زور دیا تھا کہ وہ پاک۔افغان سرحد پرطالبان عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھے اور ان کے خلاف فوجی کارروائیوں میں مزید شدت اور سختی لائے۔ دریں اثناء پاک افغان۔سرحد پر امریکی قیادت میں اتحادی افواج کی پیش قدمی کے بارے میں خطے کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک کے مختلف حلقوں میں بھی تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔
امریکہ میں اس نئی صورتحال پر کس قسم کا رد عمل دیکھنے میں آ رہا ہے‘ اس بارے میں ہم نے رابطہ کیا واشنگٹن میں ڈوئچے ویلے کے نمائندے‘ انور اقبال کے ساتھ۔ انور اقبال کے مطابق پینٹاگون، امریکی تھنک ٹینکس، ڈیمو کریٹس اور ریپبلیکنزسمیت عوام تک کا یہ خیال ہے کہ امریکہ کو افغانستان اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں طالبان کے خلاف تمام ممکنہ عسکری حربے استعمال کرنا چاہییں کیونکہ امریکہ میں عام خیال یہی ہے کہ امریکہ کو اصل خطرہ پاکستان اور افغانستان میں پائی جانے والی انتہا پسندی سے ہے۔
انور اقبال کے مطابق پاک۔افغان سرحدوں پر طالبان کی نقل وحرکت کے کنٹرول میں یا تو اسلام آباد ناکام ہوگیا ہے یا حکام موئثر اقدامات کرنا ہی نہیں چاہتے۔ اس خیال کے تحت امریکہ اب Initiative اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے۔ انور اقبال نے کہا کہ انکی اطلاعات کے مطابق پاکستانی حکومت نے امریکہ کو غالباً مزید آپریشنز کی باقائدہ اجازت دے دی ہے۔ ممکنہ امریکی فضائی حملوں اور کمانڈو ایکشن کے خلاف شاید اسلام آباد زبانی جمع خرچ کرتے ہوئے مزمت اور بیان بازی کرے تاہم زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکہ کا ایکشن حکومت پاکستان کی اجازت سے عمل میں آئے گا۔