1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سانحہ پشاور کے بعد پھانسی کی 19ویں سزا پر عمل درآمد

کشور مصطفیٰ17 جنوری 2015

پاکستان میں ہفتے کے روز فرقہ ورانہ حملوں میں ملوث اُس عسکریت پسند کو پھانسی دے دی گئی، جس کی سزا ملتوی کر دی گئی تھی ۔

https://p.dw.com/p/1ELzT
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Sheikh

انسداد دہشت گردی کی ایک خصوصی عدالت نے تاہم سزا ملتوی کرنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے پھانسی پر عمل درآمد کا حکم سنا دیا تھا۔ لاہور کی کوٹ لکھ پت جیل میں پھانسی پر چڑھنے والے اکرام الحق کو 2001 ء میں ایک شیعہ مسلم نیرعباس کو قتل کرنے کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ قاتل کا تعلق کالعدم سنی عسکریت پسند گروپ لشکر جھنگوی سے تھا اور اسے نیر عباس کے قتل کی سزا انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 2004 ء میں سنا دی تھی۔ قاتل کے گھر والوں نے اُس کی پھانسی کی سزا ملتوی کرنے کے ساتھ رحم کی اپیل کی تھی جسے کورٹ نے مسترد کر دیا۔

اکرام الحق کو آج دی جانے والی پھانسی کی سزا ایک ماہ قبل پشاور کے اسکول پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے اب تک پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد کا انیسواں واقعہ ہے۔

پولیس اور جیل حکام کے ساتھ ساتھ وکیل دفاع غلام مصطفیٰ منگان نے اکرام الحق کی پھانسی کی تصدیق کر دی ہے۔ یاد رہے کہ مجرم اکرام الحق کو 8 جنوری کو پھانسی کی سزا دی جانا تھی تاہم اس پر عمل درآمد سے چند لمحوں پہلے مقتول نیر عباس کے گھر والوں نے اُسے معاف کر دینے کا اعلان کیا تھا۔ عدالت نے تاہم قاتل اور مقتول کے گھروالوں کے مابین طے پائے جانے والے صلاح نامے کو مسترد کر دیا۔

Verhaftete Lashkar-e-Toiba Mitglieder in Pakistan
اکرام الحق کا تعلق کالعدم لشکر جھنگوی سے تھاتصویر: AP

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ ہفتے کو بات چیت کرتے ہوئے اکرام الحق کے وکیل دفاع غلام مصطفیٰ منگان کا کہنا تھا، " مقتول نیر عباس کی فیملی نے میرے موکل کو معاف کر دیا تھا جسے عدالت نے مسترد کر دیا اور ہم ابھی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے ہی والے تھے کو اکرام الحق کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد ہو گیا"۔

واضح رہے کہ پاکستانی قوانین کے تحت کسی قاتل کو مقتول کے اہل خانہ خون بہا کے بدلے معاف کر سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سزائے موت پر عمل درآمد پر پابندی دوبارہ نافذ کر دے۔ یہ پابندی 2008 ء سے دسمبر 2014 ء تک نافذ رہی۔

Pakistan Trauer nach Taliban-Überfall auf Schule in Peshawar 16.12.2014
سانحہ پشاور کے متاثرہ خاندانتصویر: Reuters/Z. Bensemra

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنان اور مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام عام جرائم کے سلسلے میں بھی انسداد دہشت گردی کے قوانین اور عدالتوں کا ضرورت سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ ایسے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ قتل کے عام واقعات میں ملوث ملزمان کو بھی انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت سزائے موت دی جا سکتی ہے۔

پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف نے پشاور میں گزشتہ ماہ 16 دسمبر کو طالبان شدت پسندوں کے حملے میں 132 بچوں سمیت 150 افراد کی ہلاکت کے بعد سزائے موت پر عمل درآمد کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔