1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سائفر کی ہلچل: کئی حلقوں میں سوالات اٹھ کھڑے ہوئے

عبدالستار، اسلام آباد
10 اگست 2023

امریکی آن لائن میگزین دی انٹرسیپٹ کی طرف سے سائفر کے مندرجات کی اشاعت نے ایک بار پھر پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے اور ملک میں اس حوالے سے کئی نوعیت کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4V0GJ
Pakistan | Gerichtsprozess ehemaliger Premierminister Imran Khan
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

کئی حلقوں میں یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا اس کی اشاعت کے بعد عمران خان سچے ثابت ہوئے ہیں؟ کیا ان پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چل سکتا ہے اور کیا عمران کی حکومت کے خلاف واقعی کوئی سازش ہوئی؟

میگزین کا انکشاف

انٹرسپٹ نے نو اگست کی اپنی اشاعت میں یہ دعوی کیا تھا کہ عمران خان نے جس سائفر کا تذکرہ کیا ہے، اس کی ایک کاپی ان کے پاس ہے۔ اس میگزین کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے سات مارچ سن 2022 کی ایک میٹنگ میں پاکستان کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان کو یوکرین جنگ پہ ’جارحانہ غیر جانب داری کے نقطہ نظر‘  کی وجہ سے ہٹایا جانا چاہیے۔

اس ملاقات کے ایک مہینے بعد عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جس میں ان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ میگزین نے لکھا کہ اس عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے خیال کیا جاتا ہے کہ اس کو پاکستان کی طاقتور فوج کی بھی حمایت حاصل تھی۔

میگزین کا دعویٰ ہے کہ اس سائفر کا متن اس سے پہلے کبھی چھپا نہیں ہے اور یہ کہ اس کے مطابق امریکی حکومت نے سزا اور جزا کی پالیسی اپنائی اور یہ کہا کہ اگر خان کو ہٹا دیا گیا تو تعلقات دوبارہ سے خوشگوار ہو سکتے ہیں ورنہ پاکستان تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے۔

عمران خان کی گرفتاری، محدود پيمانے پر احتجاج

میگزین کے مطابق اس کیبل کی سرخی سیکرٹ تھی اور اس میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے آفیشل بشمول اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ فار بیورو آف ساؤتھ اینڈ سینٹرل ایشین افیئرز ڈونلڈ لو اور اسد مجید خان، جو اس وقت پاکستان کے سفیر تھے، ان کی ملاقات کا احوال بھی شامل ہے۔ میگزین کا دعوی‌ٰ ہے کہ اس کو یہ ڈاکومنٹ پاکستانی فوج کے ایک ذریعے نے دیا، جس کا عمران خان یا اس کی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

 واضح رہے کہ عمران خان نے اقتدار سے نکلنے سے پہلے عوامی جلسوں میں یہ انکشاف کیا تھا کہ امریکہ نے ان کو  اقتدار سے نکالنے کی ایک سازش تیار کی تھی۔ بعد میں انہوں نے اس سازش کا الزام جنرل باجوہ، شہباز شریف اور محسن نقوی پر لگایا۔

کیا واقعتاﹰ عمران خان کو مارنے کی سازش ہو رہی ہے؟

اور اب امریکہ کے لیے نرم گوشہ: عمران خان کا انٹرویو زیر بحث

عمران خان کی سچائی

سابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر ذوالفقار علی بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان شروع سے ہی یہ کہہ رہے تھے جو اب انکشاف میگزین میں ہوا ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت وزارت کا کہنا ہے کہ اس انکشاف سے عمران خان سچے ثابت ہوگئے ہیں۔  انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں اس انکشاف کے بعد عمران خان کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ ہوگا کیونکہ اس انکشاف سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان پر دباؤ تھا اور ایک طاقتور ملک ایک چھوٹے ملک میں مداخلت کر رہا تھا۔‘‘

معاملہ کی انکوائری کرائی جائے

اسلام اباد سے تعلق رکھنے والی صحافی فریحہ ادریس کا کہنا ہے کہ اگر اس اشاعت کے مندرجات صحیح ہیں تو پھر یہ وہی بات ہے جو عمران خان کافی عرصے سے کہہ رہے تھے۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس انکشاف کے بعد ایک پیچیدہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ جو کچھ عمران خان کہہ رہے تھے وہ صیح ہو۔  تاہم اس کا حل یہ ہے کہ اس سارے معاملے کی انکوائری کی جائے۔

سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر کا بھی یہ مطالبہ ہے کہ اس سائفر کے معاملے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اس معاملے کی وجہ سے پوری دنیا میں خارجہ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ لہذا اس کی تحقیقات ہونا چاہیں۔‘‘

عمران خان کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے ہی انہیں قتل کرنے کی سازش کی

پاکستانی سیاست دان امریکا مخالف کارڈ کیوں استعمال کرتے ہیں؟

عمران کی سچائی ثابت نہیں ہوتی

تاہم کچھ دوسرے مبصرین کے خیال میں اس سے عمران خان کی کہیں سچائی ثابت نہیں ہوتی۔ پاکستان کے سابق سفیر برائے امریکہ حسین حقانی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس مسئلے کے حوالے سے جو انٹرسیپٹ نے شہہ سرخی لگائی ہے، وہ گمراہ کن ہے۔ اگر ایک امریکی سفیر پاکستانی سفیر کو یہ بتاتا ہے کہ اس کی حکومت پاکستانی وزیر اعظم کو پسند نہیں کرتی اور یہ کہ تعلقات ایک دفعہ پھر بہتر ہو سکتے ہیں اگر وہ وزیراعظم چلا جائے، تواس سے کہیں بھی دباؤ کا تاثر نہیں جاتا اور نہ ہی کسی دھمکی کا عندیہ ملتا ہے۔‘‘

بشریٰ گوہر کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس سے سازش کا تاثر نہیں ملتا، ''ممکن ہے کہ اس سائفر اور اس طرح کے دوسرے معاملات کی وجہ سے پنڈی پروجیکٹ، جس کے تحت عمران کو اقتدار میں لایا گیا تھا، اس کو بند کرنے کے عمل کو تیز کیا گیا ہو لیکن اس میں سازش کہیں ثابت نہیں ہوتی۔‘‘

عمران خان گرفتار، عوام سے احتجاج کی اپيل

فریحہ ادریس بھی تسلیم کرتی ہیں کہ اس انکشاف کے مندرجات سے سازش کا کوئی تاثر نہیں ملتا، ''عمران خان کا اصل دعوی یہی تھا کہ امریکہ نے سازش کی ہے۔ لیکن ان مندرجات سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امریکہ نے ایسی کوئی سازش کی تھی۔ یہ بات بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ عمران خان نے سازش کے حوالے سے اپنا دعوی واپس بھی لے لیا تھا۔‘‘

سازش پاکستانیوں نے کی

اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ سازش امریکہ نے نہیں کی تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب امریکہ عمران خان سے ناراض ہوا، تو باجوہ، زرداری اور شریف فیملی نے امریکہ کے ڈر سے عمران خان کے خلاف سازش کی۔  سازش کرنے والے ہمیشہ ملک کے اندر کے ہی لوگ ہوتے ہیں۔‘‘

عمران خان کے دعووں کے متعلق پاکستانی فوج کے بیان سے متفق ہیں، امریکہ

سازش کے نام پر بحران کی سازش

 عمران خان کے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی

جہاں پاکستان میں کئی حلقے اس انکشاف کے مندرجات پر نظر رکھے ہوئے ہیں، وہیں مسلم لیگ نون کے رہنما رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ماضی میں کہا تھا کہ ان کے پاس سائفر تھا وہ اور وہ گم ہو گیا تھا، ''سائفر کے معاملے کی تحقیقات ہونا چاہیے اور یہ معلوم کیا جانا چاہیے کہ یہ ڈاکومنٹ مستند ہے کہ نہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی طور پر یہ بہت شرمناک، خطرناک اور باغیانہ قدم ہے، ''عمران خان نے کہا تھا کہ ان کے پاس سائفر کی ایک کاپی ہے، جو انہوں نے واپس نہیں کی اور انہوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ وہ ان سے گم ہو گئی تھی۔ اگر اس حوالے سے خان گنہگار ٹھہرتا ہے، تو اس پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلنا چاہیے۔‘‘

تاہم شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے عمران خان پر مقدمہ نہیں چل سکتا، ''سائفر وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹیری کو آتے ہیں اور یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان کی حفاظت کرے اور ان کو محفوظ کرے۔ تو عمران خان پر اس حوالے سے مقدمہ نہیں چل سکتا۔‘