1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لتا جی کی موت: پاکستان بھی سوگوار

6 فروری 2022

ممتاز بھارتی گلوگارہ لتا منگیشکرکی وفات پر پاکستان میں بھی دکھ اور سوگ کے جذبات نمایاں ہیں۔ لاکھوں مداحوں کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں، فنکاروں، صحافیوں اور عام لوگوں کی طرف سے ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/46bC3
Indien | Sängerin Lata Mangeshkar
تصویر: Sherwin Crasto/REUTERS

لتا جی کے چاہنے والے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ان کے گیت شیئر کر رہے ہیں اور پاکستان کے ٹی وی چینل اس خبر کو نمایاں طور پر نشر کر رہے ہیں۔ ادھر ٹوئیٹر پر لتا جی کے حوالے سے کی جانے والی پوسٹ ٹرینڈ کر رہی ہیں۔

پاکستانی فنکاروں کا خراج تحسین

ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستانی گلوکاروں کی تنظیم پاکستان سنگرز ایسوسی ایشن کے سربراہ اور معروف گلوکار انور رفیع نے بتایا کہ جب سے انہوں نے یہ خبر سنی ہے انہیں یوں لگ رہا ہے کہ جیسے دنیا سے اردو موسیقی ختم ہو گئی ہے: ''برصغیر کی گلوکاراؤں میں دو ہی نام سب سے بڑے تھے ایک میڈم نور جہاں اور دوسری لتا منگیشکر۔ اب ان جیسا کوئی نہیں ہے۔ موسیقی کا ایک بہت شاندار دور اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ ‘‘

انور رفیع کہتے ہیں کہ لتا جی کی موت ان کے لیے ذاتی طور پر بہت دکھ کی بات ہے کیونکہ ان کے خاندان کو بھی ان سے ایک نسبت تھی: ''لتا جی جب پہلی بار ایک فلم کے لیے گانے کے لیے آئیں تو انہیں کام دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مراٹھی پس منظر کی حامل لتا جی کا ان دنوں تلفظ اور لب و لہجہ اردو زبان کے بہتر معیار سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ اس پر میرے والد محمد شفیع نے (جو اس دور میں میوزک ڈائریکٹر تھے) اردو سیکھنے میں ان کی مدد کی۔ اس بات کا اعتراف وہ ہمیشہ کرتی رہیں۔‘‘

Indien Mumbai | Lata Mangeshkar
پاکستان کے متاز گلوکار استاد حامد علی خان نے لتا منگیکشر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایسی آواز صدیوں بعد ہی پیدا ہوتی ہے، ان کی آواز میں جو مٹھاس، درد اور خوبصورتی تھی یہ صرف قدرت کی عطا ہی ہو سکتی ہے۔ تصویر: AFP

انور رفیع کا کہنا تھا کہ لتا جی کی موت کا دکھ پاکستان میں شدت سے محسوس کیا گیا ہے۔ انور رفیع کے بقول فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور فنکار روایتی اختلافات سے بالاتر ہوتے ہیں جیسے مائیکل جیکسن کو پوری دنیا نے سنا اسی طرح پاکستان میں لتا منگیشکر کو سننے والے بھی بہت تھے۔ 

پاکستان کے ایک اور ممتاز گلوکار استاد حامد علی خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ لتا منگیشکر نے اپنی پوری زندگی میوزک انڈسٹری کو دے دی اور ایک صدی کا بڑا حصہ انہوں نے گیت گا کر گزارا۔ استاد حامد علی خان کے مطابق، 'میرے خیال میں ایسی آواز صدیوں بعد ہی پیدا ہوتی ہے۔ ان کی آواز میں جو مٹھاس، درد اور خوبصورتی تھی یہ صرف قدرت کی عطا ہی ہو سکتی ہے۔ انسان اس آواز کو شاید کوشش سے حاصل نہیں کر سکتا۔ انہوں نے جو گیت گایا وہ امر ہو گیا۔ ہمارے خاندان کی موسیقی میں خدمات سے وہ آ گاہ تھیں۔ وہ استاد بڑے غلام علی خان صاحب کی شاگردہ تھیں۔ لتا جی نے استاد امانت علی خان کو بھی سن رکھا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ وہ پاکستان آ رہی تھیں اور انہوں نے اپنے میزبان سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مجھے سننا چاہتی ہیں لیکن کسی وجہ سے وہ پاکستان نہ آ سکیں۔ ‘‘


حکومتی اور سیاسی شخصیات کا اظہار افسوس

پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر جاری کردہ اپنے بیان میں کہا کہ لتا منگیشکر کا انتقال موسیقی کے ایک عہد کاخاتمہ ہے، ان کی آواز کاجادو رہتی دنیاتک رہےگا۔ پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات نے مزید لکھا کہ جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، وہاں لتا کو الوداع کہنے والوں کا ہجوم ہے۔

پاکستان کے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بھی سُروں کی ملکہ لتا کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لتا منگیشکر کے انتقال سے موسیقی کی دنیا ایک ایسی گلوکارہ سے محروم ہوگئی جس نے اپنی سُریلی آواز سے نسلوں کو مسحور کیا، میری نسل کے لوگ ان کے خوبصورت گانے سنتے ہوئے بڑے ہوئے جو ہماری یادوں کا حصہ رہیں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گلوکارہ لتا منگیشکر کی وفات پر اظہارِ افسوس کیا ہے۔ بلاول نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ نصف صدی سے زائد عرصہ اپنی آواز کا جادو جگا کر لتا منگیشکر نے کروڑوں انسانوں کو اپنے سنگیت کا گرویدہ بنایا۔ان کا کہنا ہے کہ آنجہانی لتا منگیشکر برصغیر میں موسیقی کی ایک پہچان تھیں، فلمی صنعت کے لیے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ لتا منگیشکر کے گیت، ان کے نغمے اور سُر کبھی فراموش نہیں کیے جا سکیں گے۔

پاکستانی صحافی برادری بھی دکھ میں شریک

پاکستان کے ایک سینیئر صحافی کامران خان نے اپنی ایک ٹوئیٹ  میں لکھا، ''لتا منگیشکر آج گزر گئیں دنیا میں پھیلے ان گنت چاہنے والوں کے دلوں میں انکا بسیرا ہمیشہ رہے گا، لتا جی کی لا فانی گائیکی بے مثال آواز مہدی حسن ملکہ ترنم نور جہاں کی طرح سرحدوں میں قید نہیں کی جا سکتی لتا جی صرف بھارتیوں کی نہیں ہم سب کی دیدی تھیں۔‘‘

پاکستان کے سینئرتجزیہ کار اور برصغیر کی موسیقی کی تاریخ پر نظر رکھنے والے شاہد ملک کا خیال ہے کہ پاکستان اور بھارت میں پائے جانے والے اختلافات کے باوجود ان ملکوں کو جن چیزوں نے جوڑے رکھا  ان میں لتا جی کے گیتوں کا حصہ بھی بہت نمایاں ہے۔ ان کے بقول خاص طور پر پاکستان کے ٹیلی وژن سے قبل کے دور میں پروان چڑھنے والی نسل میں لتا جی کے مداحوں کی تعداد بہت بڑی تھی۔