1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رویوں میں بدلاؤ کی ضرورت، بچوں کو یا والدین کو؟

26 دسمبر 2020

بچوں اور پودوں میں بہت ساری قدریں مشترک ہوتی ہیں۔ ان کے لیے بھی ضروریات زندگی فراہم کر دینا کافی نہیں ہوتا۔ طاہرہ سید کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3nEoj
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

میری والدہ کو پودوں سے عشق ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے گھر میں پودوں کی بے شمار اقسام موجود ہیں۔ پودوں کی دیکھ بھال اور صحت سے متعلق ان سے تبادلہ خیال ہماری معلومات میں اضافے کا سبب بنتا رہتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک پودا مرجھانے لگا جبکہ اس کے ساتھ موجود دیگر پودے ہرے بھرے تھے۔ اماں کی مشاورت سے اس پودے کی جگہ تبدیل کی گئی اور چند دنوں میں وہ پھر سے ہرا بھرا ہوگیا۔ اماں نے ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ پودوں کے بھی احساسات اور جذبات ہوتے ہیں۔ اگر وہ اپنے اردگرد رکھے پودوں کے درمیان یا ماحول سے ناخوش ہو تو اُن کا رنگ تک تبدیل ہو جاتا ہے۔ کھاد، ہوا، روشنی اور پانی ملنے کے باوجود بھی اُن کی نشوو نما رک جا تی ہے۔ جبکہ اُسی ماحول میں دیگر پودے ہرے بھرے خوش باش ہیں۔

ایسا ہی کچھ معاملہ خالق نے انسانوں کے درمیان بھی رکھا ہے۔ بچوں اور پودوں میں بہت ساری قدریں مشترک ہوتی ہیں۔ ان کے لیے بھی ضروریات زندگی فراہم کر دینا کافی نہیں ہوتا۔ ہر بچے کی ضروریات بھی دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ ایک ہی خاندان، ایک ہی گھر میں رہنے والے حتٰی کہ جڑواں بہن بھائی تک الگ الگ مزاج، پسند نا پسند، اور الگ الگ احساسات رکھتے ہیں۔ تو پھر ایسا کیسے ممکن ہے کہ دو مختلف ادوار میں پرورش پانے والے انسان ایک جیسا سوچ سکیں اور ایک جیسے احساسات رکھ سکیں۔

طاہرہ سید کے دیگر بلاگ

خالق کی تخلیق میں ادھورا پن تلاش مت کیجیے

ماحولیاتی تباہی کی ذمہ دار جنگیں، تنازعات اور انسانی ہوس بھی

پاکستان میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح

جنریشن گیپ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا گیا، بہت کچھ کہا گیا۔ ماضی میں شاید والدین کو یہ بات سمجھانے کی بہت ضرورت بھی پڑتی تھی کہ نئی نسل کے خیالات اور جذبات یقیناﹰ پچھلی نسل سے مختلف ہوں گے لیکن موجودہ دور کے والدین اس بات کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ بچوں کا دور ہم سے مختلف ہے اور ان کی ضروریات بھی ہم سے مختلف ہوں گی۔ لیکن شاید آج کے بچے یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کے والدین اس جدید ٹیکنالوجی کے سیلابی ریلے کے سامنے کس طرح سے بے بسی محسوس کر رہے ہیں۔ جبکہ معلومات کی افراتفری نے ہماری نئی نسل کے ذہنوں کو ارتکاز سے محروم کردیا ہے۔ کسی ایک کام یا کسی ایک چیز پر توجہ مرکوز کرنا ان کی نظر میں بے وقوفی کہلاتا ہے۔ لہٰذا ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک وقت میں مختلف چیزوں پر اپنا دھیان رکھے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ ان کے والدین اکثر اپنا ہر کام پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ کرنے کے عادی ہیں۔ انہیں یہ بات پریشان کردیتی ہے کہ ان کی اولاد بیک وقت مختلف طرح کی چیزوں پر دھیان کیسے دے سکتے ہیں۔ اگر آن لائن کلاس چل رہی ہے تو اسی درمیان میں دوستوں سے چیٹ بھی چل رہی ہوگی۔ دیگر انٹرٹینمنٹ کی سائیٹ بھی کھلی ہوئی ہوں گی۔ اگر کتاب سے پڑھائی کی جا رہی ہے تو ساتھ ہی سیل فون کا استعمال بھی ہو رہا ہے۔ اکثرگھروں میں یہی بات بچوں اور والدین کے درمیان وجہ تنازعہ بن جاتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

اس ٹیکنالوجی نے ہم سے گفتگو کے وہ مواقع بھی چھین لیے ہیں جو والدین اور اولاد کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے کا سبب بنتی ہے۔ پچھلی نسل کے بچے والدین سے بات کرنے کے مواقع کے متلاشی رہتے تھے۔ والدین کا رعب ودبدبہ ان کو ہکلانے پر مجبور کر دیتا تھا۔ اور آج والدین بچوں سے بات کرنے کے تمنائی نظر آتے ہیں لیکن بچے اسکرین میں ڈوبے ہوئے اپنی دنیا میں گم ہوتے ہیں۔ معلومات کے بہاؤ نے بچوں میں شاید یہ احساس پیدا کر دیا ہے کہ ہم اپنے والدین سے زیادہ جانتے ہیں۔ والدین کے پاس عملی زندگی کا تجربہ اور زندگی کو جھیلنے کی پریکٹس یقیناﹰ اپنے بچوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن بچے اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ زیادہ جانتے ہیں۔ اور اپنے والدین سے بہتر زندگی گزارنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا اپنے کیریئر کے بارے میں بھی ان کا فیصلہ والدین کی خواہشات سے مختلف ہوتا ہے۔ اور ناکامی کی صورت میں والدین کو ذمہ دار ٹہرایا جاتا ہے کہ انہیں ہمارے مسائل، ضروریات اور مشکلات کا احساس ہی نہیں۔ یہ نئے دور کے تقاضوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ یا پھر اپنے والدین کا موازنہ کسی اور سے کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے وقت میں زیادہ محنت کی ہوتی، کچھ بچایا ہوتا تو آج ہم بھی عیش کی زندگی گزار رہے ہوتے۔

باپ کے جذبات اور محنت کا احساس اولاد کو جوانی میں ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ان کے مد نظر صرف ان کی اپنی خواہشات اور ضروریات ہوتی ہیں۔ دنیا سے مقابلے کا بھوت سر پہ سوار ہوتا ہے۔ جب کہ ہمارے درمیانے طبقے کے سفید پوش والدین کی ہر دعا، ہر خواہش اور ہر تمنا اولاد سے شروع ہوکر اولاد پر ہی ختم ہوتی ہے۔ اس دور کے والدین چاہے امیر ہوں یا غریب اپنے بچوں کو موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ہر سہولت بہم پہچانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اور یہی سہولیات والدین اور بچوں کے درمیان مزید دوری کا سبب بنتی ہیں۔ اکثر والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کا اپنا ذاتی کمرہ، لیپ ٹاپ اور سیل فون ہو۔ یہاں تک کہ ایک دن ماسی اسمارٹ فون لیے ہوئے آئی کہ اس میں کچھ مخصوص ایپلیکیشن ڈاون لوڈ کردیں۔ پوچھنے پر بتایا کہ کمیٹی نکلی ہے تو بیٹی کے لیے اسمارٹ فون لیا ہے۔ آن لائن کلاسوں کی مجبوری میں دلانا پڑا۔ تو پھر صورت حال یہ بنتی ہے کہ بچے اپنے اپنے کمروں میں قلعہ بند ہو کر اپنی ورچول دنیا می گم ہوتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے کونے میں موجود شخص سے تو رابطہ ہے لیکن ایک ہی چاردیواری میں موجود والدین اور فیملی سے بات کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔

جب زندگی میں اتنی آسانیاں نہیں تھیں تو ایک خاندان کے تمام افراد ایک دوسرے سے نا صرف باخبر رہتے تھے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ گزارنے کے لیے وقت کی کمی نہیں تھی۔ اس تیز رفتار دور میں بچوں اور والدین کے درمیان برائے نام بات چیت ہوپاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ نہ والدین بچوں کے مسائل سمجھ پاتے ہیں اور نہ بچے والدین کی مجبوریوں سے باخبر ہوتے ہیں۔ البتہ اپنے تیز رفتار دور کی مشکلات سے نبردآزما ہوتے ہوئے خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نئی نسل میں ذہنی انتشار بڑھ رہا ہے۔ ساری ٹیکنالوجی کے باوصف اور ماڈرن تعلیم کے برعکس ہماری ذہنی اور شعوری کیفیت دن بدن پست ہوتی جارہی ہے۔ سب کچھ پا لینے کی تگ ودو میں والدین اولاد کو اپنی محبت اور تحفظ کا احساس نہیں دے پاتے۔ اس صدی کی تیسری دہائی دستک دینے کو ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ مشینی دور انسانوں کو بھی مکمل مشین بنا دے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ والدین اور بچوں کے درمیان فاصلے سمٹ جائیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وقت نکالیں اورایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔