1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا کی میانمار واپسی: حالات سازگار نہیں، اقوام متحدہ

8 اپریل 2018

اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق میانمار کی حکومت کے اصرار کے باوجود ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے لاکھوں روہنگیا مہاجرین کی میانمار کی ریاست راکھین واپسی کے لیے حالات ابھی تک سازگار نہیں ہیں۔

https://p.dw.com/p/2vgK9
میانمار سے زخمی حالت میں بنگلہ دیش پہنچنے والی ایک روہنگیا مسلم خاتون مہاجرتصویر: Reuters/J. Silva

میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون سے اتوار آٹھ اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق میانمار حکومت مسلسل اس امر پر اصرار کر رہی ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے لاکھوں مسلم اقلیتی روہنگیا مہاجرین کی واپسی کے لیے تیار ہے لیکن اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ اہلکار نے آج واضح طور پر کہہ دیا کہ ان مہاجرین کی راکھین واپسی کے لیے حالات ابھی تک بالکل سازگار نہیں ہیں۔

بھارت میں روہنگیا کیمپوں کی صورتحال پر رپورٹ طلب

آسيان اجلاس: روہنگيا مہاجرين کا بحران زير بحث، حل کوئی نہيں

میانمار کی ریاست راکھین سے گزشتہ برس اگست میں وہاں جاری خونریز فوجی کریک ڈاؤن سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے قریب سات لاکھ روہنگیا مسلمان فرار ہو کر ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہو گئے تھے، جن کی بہت بڑی اکثریت کوکس بازار نامی بنگلہ دیشی ضلع میں مقیم ہے۔

Bangladesch Flüchtlingscamp für Rohingya Witwen mit ihren Kindern
تصویر: Reuters/D. Sagolj
Bangladesch Rohingya Flüchtlinge bei Cox’s Bazar
تصویر: Reuters/M. Ponir Hossain

تب ان مہاجرین نے الزام لگایا تھا کہ راکھین میں ملکی فوجی اور بدھ شدت پسند ان کے گھروں کو جلا رہے تھے اور مردو‌ں کو قتل کرنے کے علاوہ بڑی تعداد میں روہنگیا خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں بھی کی جا رہی تھیں۔

زیادہ تر بدھ اکثریتی آبادی والے میانمار کی فوج اپنے خلاف ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ ان لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی میانمار واپسی کے لیے گزشتہ برس نومبر میں بنگلہ دیش اور میانمار کی حکومتوں کے مابین ایک باقاعدہ معاہدہ بھی طے پا گیا تھا مگر ابھی تک کوئی ایک بھی روہنگیا مہاجر بنگلہ دیش سے واپس میانمار نہیں لوٹ سکا۔

’فوج نے روہنگیا کے دیہات مٹا کر وہاں چھاؤنیاں بنا لیں‘

میانمار میں روہنگیا کے 55 گاؤں مسمار کیے گئے، ایچ آر ڈبلیو

اس پس منظر میں اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر امدادی کارروائیوں کے رابطہ دفتر کی نگران خاتون اہلکار اور عالمی ادارے کی نائب سیکرٹری جنرل اُرزُولا میولر نے اتوار آٹھ اپریل کو کہا کہ راکھین میں حالات ابھی تک اتنے سازگار نہیں کہ روہنگیا مہاجرین رضاکارانہ طور پر لیکن عزت کے ساتھ اور دیرپا بنیادوں پر واپس لوٹ سکیں۔

Myanmar Zerstörung von Dörfern der Rohingya
راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کے بہت سے دیہات جلا بھی دیے گئے تھےتصویر: picture-alliance/AP Photo/DigitalGlobe

عالمی ادارے کی نائب سیکرٹری جنرل نے میانمار کے اپنے چھ روزہ دورے کے اختتام پر، جس دوران وہ راکھین بھی گئیں، اے ایف پی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میانمار حکومت کو لازمی طور پر ان انتہائی اہم اور فیصلہ کن لیکن ابھی تک حل طلب امور کا کوئی حل نکالنا ہو گا کہ روہنگیا مہاجرین اپنی واپسی کے بعد آزادانہ طور پر نقل و حرکت کر سکیں اور انہیں ریاست کی طرف سے دی جانے والی معمول کی شہری سہولیات سمیت روزگار کی منڈی اور سماجی انضمام کے عمل تک بھی رسائی حاصل ہو۔‘‘

دیہاتوں کی مسماری، ’روہنگیا تاریخ کے خاتمے کی کوشش‘

میانمار میں روہنگیا باشندوں کو برس ہا برس تک بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی مہاجرین قرار دے کر ایسے حالات میں رہنے پر مجبور کیا جاتا رہا کہ ان کی حالت نسلی امتیاز سے متاثرہ ایک بدحال اقلیت کی سی تھی اور وہ میانمار کے شہری بھی تسلیم نہیں کیے گئے تھے۔ اسی لیے یہ مسلم اقلیت ابھی تک ’بے وطن‘ سمجھتی جاتی ہے۔

اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل میولر نے اپنے دورہ میانمار کے دوران راکھین میں بہت سے ایسے روہنگیا مسلم باشندوں سے بھی ملاقاتیں کی، جو وہاں ’قابل مذمت حالات میں‘ مختلف کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

’بارودی سرنگوں کی تنصیب کا مقصد روہنگیا مہاجرین کو روکنا ہے‘

کیا روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی ممکن ہو سکے گی؟

یہ روہنگیا باشندے قریب چھ برسوں سے راکھین میں ایسے تکلیف دہ حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ برس اگست سے قبل چھ سال پہلے بھی میانمار کی اسی ریاست میں روہنگیا اقلیت کے خلاف نسلی اور مذہبی بنیادوں پر وسیع تر قتل و غارت دیکھنے میں آئی تھی۔

م م / ع ب / اے ایف پی