روہنگیا عسکریت پسندوں نے ہندوؤں کا قتل عام کیا تھا، ایمنسٹی
23 مئی 2018گزشتہ برس میانمار کی ریاست راکھین میں ہونے والے فسادات میں روہنگیا عسکریت پسند 53 ہندو دیہاتیوں کے قتل عام میں ملوث تھے۔ قتل کیے جانے والوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ بات آج بدھ 23 مئی کو جاری کردہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق روہنگیا عسکریت پسندوں نے ان ہندوؤں کو 25 اگست دو ہزار سترہ کے روز قتل کیا۔ یہ وہی دن تھا جب روہنگیا عسکریت پسندوں نے علاقے میں موجود پولیس چوکیوں پرمنصوبہ بندی کے ساتھ حملے کیے تھے، جو اس ریاست میں شدید بحران کی وجہ بنے تھے۔
ان حملوں کے بعد میانمار کی فوج کا انتہائی سخت ردعمل سامنے آیا تھا، جو اس بدھ اکثریتی ملک سے سات لاکھ روہنگیا مسلمانوں کی مہاجرت کی وجہ بنا تھا۔ روہنگیا مسلمان میانمار میں طویل عرصے سے ناروا سلوک کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق میانمار کی فوج کی طرف سے روہنگیا اقلیت کے خلاف کیا جانے والے کریک ڈاؤن ’نسلی تطہیر‘ کے زمرے میں آتا ہے جہاں فوجیوں اور بدھ مت کے ماننے والوں نے عام شہریوں کو قتل کیا اور ان کے بہت سے دیہات کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔
تاہم روہنگیا عسکریت پسندوں کو بھی اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی (ARSA) نامی روہنگیا عسکریت پسندوں کی تنظیم اس ذمہ داری سے انکار کرتی ہے۔
تاہم آج بدھ کے روز ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے کہا گیا کہ اس کی نئی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ راکھین کے شمالی حصے کے ایک گاؤں کھا ماؤنگ سیک میں 53 ہندؤں کو ’قتل عام کے انداز میں‘ جان سے مارا گیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کرائسز ریسپانس ڈائریکٹر ترانہ حسن کے مطابق، ’’ان مظالم کی تحقیقات بھی اتنی ہی ضروری ہیں جتنی شمالی ریاست راکھین میں میانمار کی سکیورٹی فورسز کی طرف سے کیے جانے والے مظالم کی۔‘‘
قتل ہونے سے بچ جانے والے آٹھ افراد سے کیے گئے انٹرویوز کی بنیاد پر انسانی حقوق کی اس تنظیم کا کہنا ہے کہ نقاب پوش افراد اور روہنگیا دیہاتیوں کی طرف سے ہندو باشندوں کو جمع کر کے ان کے آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی گئی تھیں اور پھر انہیں آبادی سے باہر لے جا کر قتل کر دیا گیا تھا۔
ا ب ا / م م (اے ایف پی)