روس کے ساتھ حقیقی جنگ لڑ رہے ہیں، یوکرائنی صدر
20 مئی 2015آج بدھ کے روز یوکرائنی سکیورٹی سروس کے ایک ترجمان نے فیس بک پر ایک پیغام میں بتایا کہ کییف کے ملٹری ہسپتال میں کپتان Yevgeny Yerofeyev اور سارجنٹ الیکسانڈر الیکسانڈروف کی صحت اب بحال ہو رہی ہے اور ان دونوں روسی فوجیوں کو روس میں اپنے رشتہ داروں سے ٹیلی فون پر بات کرنے کی اجازت ہے۔
قبل ازیں یوکرائنی حکومت نے ان دونوں روسی فوجیوں کی ویڈیو فوٹیج نشر کی تھی اور کہا تھا کہ انہیں ملک کے مشرقی حصے میں جاری لڑائی کے دوران گرفتار کیا گیا۔ دریں اثناء ماسکو حکومت نے کہا ہے کہ مذکورہ افراد ملکی فوج کا حصہ نہیں ہیں اور وہ روسی فوج چھوڑ چکے ہیں۔ انہیں دو ماہ قبل سرحد پار کر کے یوکرائن کے جنگی زون میں داخل ہونے کے بعد فوج سے برطرف کر دیا گیا تھا۔
کییف حکومت نے منگل کے روز ان دو زخمی افراد کو میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان گرفتاریوں سے ثابت ہو گیا ہے کہ روس یوکرائن کے مشرقی حصے میں جاری لڑائی میں براہ راست شریک ہے۔
روس کے ساتھ حقیقی جنگ
یوکرائنی صدر پیٹرو پوروشینکو نے آج بُدھ کو نشر ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ بحران زدہ یوکرائن اس وقت روس کے ساتھ ایک ’حقیقی جنگ‘ لڑ رہا ہے اور یہ جنگی صورتحال کسی وقت بھی شدت اختیار کر جائے گی۔ مغرب نواز یوکرائنی صدر کا کہنا تھا کہ روسی اسپیشل سروس کے دو مبینہ فوجیوں کی گرفتاری سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یوکرائن کے صنعتی طور پر اہم مشرقی علیحدگی پسند علاقے میں بغاوت کی آڑ میں ماسکو یوکرائن کو توڑنے کی مہم چلا رہا ہے۔
صدر پوروشینکو نے کہا، ’’میں اس بارے میں بالکل واضح الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جنگ روس نواز علیحدگی پسندوں کے خلاف نہیں بلکہ یہ روس کے ساتھ حقیقی جنگ ہے۔‘‘
برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے 49 سالہ پوروشینکو کا مزید کہنا تھا، ’’یہ حقیقت کہ ہم نے روس کی ریگولر اسپیشل فورسز کے فوجیوں کو گرفتار کیا ہے، اس امر کا ثبوت ہے کہ ہماری جنگ روس کے ساتھ ہے۔‘‘
پیٹرو پوروشینکو کے مطابق وہ روسی صدر پوٹن پر بالکل بھروسہ نہیں کرتے تاہم اُن کے پاس روسی لیڈر کے ساتھ پائے جانے والے بحران کے سفارتی حل کے سوا کوئی متبادل بھی موجود نہیں ہے۔ ’’اس جنگ کا خاتمہ ٹینکوں اور بندوقوں کی مدد سے ممکن نہیں ہے۔‘‘
جرمنی اور فرانس کے لیڈروں کی مدد سے اس سال فروری میں پوروشینکو نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ جنگ بندی کا جو دوسرا معاہدہ طے کیا تھا، وہ اپنی کامیابی سے بہت دور نظر آ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق یوکرائن کا بحران اب تک کم از کم چھ ہزار دو سو پچاس انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن چکا ہے جبکہ اس بحران کے باعث ایک ملین سے زائد انسان بے گھر بھی ہو چکے ہیں۔