رات ہوتے ہی اسلام آباد کی سٹرکوں پر سوروں کا راج
29 اگست 2016رات کے اوقات میں اکثر سوروں کے غول اسلام آباد شہر کے کوڑے سے اپنی خوراک ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ شہر کے ایک رہائشی اسامہ الیاس مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں رہتے ہیں۔ انہوں نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا، ’’سوروں کی موجودگی اب تو یہاں کی زندگی کا ایک حصہ بن گئی ہے، یہ امر باعث خوف نہیں ہے لیکن کبھی کبھار ہم ان سے تنگ ضرور آتے ہیں۔‘‘
اسلام آباد شہر کا قیام پچاس برس قبل عمل میں آیا تھا۔ آج بھی شہر کے کئی علاقے سرسبز و شاداب ہیں اور کئی علاقوں میں گھنے جنگلات بھی ہیں، جو کہ سوروں کے لیے چھپنے کا کام دیتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ کے ترجمان سیلم ملک کا کہنا ہے،’’اسلام آباد کی تعمیر سے قبل یہ علاقہ جنگل ہوتا تھا، انسانوں کے یہاں آباد ہونے سے بہت عرصہ قبل یہاں سور موجود تھے۔‘‘ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ سوروں کی آبادی اسلام آباد میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ سلیم ملک کا کہنا ہے،’’سوروں کے ایک جوڑے کے ہاں ہر چار ماہ میں لگ بھگ درجن بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔‘‘
شہر کی انتظامیہ سوروں کی بڑھتی آبادی سے پریشان نظر نہیں آتی۔ اسلام آباد کی جنگلی حیات اور پرندوں کی دیکھ بھال پر تعینات محمود عالم کا کہنا ہے،’’شہر کی میونسپل انتظامیہ سوروں کو صفائی ستھرائی کرنے کا ایک قدرتی ذریعہ سمجھتی ہے، یہ کوڑے میں پھینکی گئی کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ ساتھ مرے ہوئے جانوروں کی لاشوں کو بھی لے جاتے ہیں۔‘‘
سوروں کو اسلام میں ایک غلیظ جانور کی حیثیت دی گئی ہے لیکن شہر کی انتظامیہ کو کسی مذہبی تنظیم یا انتظامیہ کی طرف سے ان کے خلاف کبھی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔ مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں قائم ایک مدرسے سے وابستہ قاری سعید نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا، ’’یہ درست ہے کہ اسلام میں سوروں کو ’نجس‘ قرار دیا گیا ہے لیکن بغیر کسی وجہ کے سوروں کو جان سے مارنا اسلام میں جائز نہیں ہے۔‘‘
میڈیا رپورٹس کے مطابق سن 2012 میں ایک جنگلی سور نے خوراک کی تلاش میں ایوانِ صدارت کا گیٹ توڑ دیا تھا ور ایک سکیورٹی گارڈ کو زخمی کر دیا تھا۔ حال ہی میں سوروں کے ایک غول نے مرکزی ہائی وے کو بلاک کر دیا تھا، جس کے باعث ایک عورت زخمی ہو گئی تھی۔
سن 2007 تک سوروں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے غیر ملکیوں اور مقامی آباد کو سوروں کا شکار کرنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے بعد ان کے شکار پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ سلیم ملک کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ کسی بھی بندوق بردار کو غلطی سے دہشت گرد سمجھا جا سکتا تھا۔ مارگلہ کی پہاڑیوں میں فوجیوں نے اپنی ایک چوکی قائم کر رکھی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں سوروں کے شکار کی اجازت نہیں ہے، ان پہاڑیوں کے علاوہ دیگر مقامات پر اِن کے شکار کی اجازت ہے۔