1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ذیابیطس: موٹے مریض دبلوں سے زیادہ جیتے ہیں

12 اگست 2012

امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے ایک جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ موٹاپے کے شکار ایسے مریض، جن کے خون کے اندر شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، اس مرض کے شکار دبلے مریضوں سے زیادہ عمر پاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/15oF6
تصویر: picture alliance/dpa

یہ اندازہ ماضی میں اس سلسلے میں کیے جانے والے پانچ مطالعاتی جائزوں کو بنیاد بنا کر لگایا گیا ہے۔ اس ریسرچ میں شامل افراد میں ایک عرصے تک امراض قلب کے خطرے کا باعث بننے والے عوامل کا جائزہ لیا جاتا رہا۔

اس مطالعے میں شامل ٹیم کی لیڈر مرسیڈیز کارنتھون کا تعلق شکاگو کے فائن برگ اسکول آف میڈیسن سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں ’موٹاپے کے اس ظاہری تضاد‘ کا مشاہدہ دل اور گردوں کے غیر فعال یا ناکارہ ہو جانے جیسے کہنہ امراض کے سلسلے میں کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اگر آپ ذیابیطس کا شکار ہو گئے ہیں تو آپ اپنی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے اپنا وزن بڑھا لیں۔

دراصل مزید وزن بڑھا لینے سے ذیابیطس سے تحفظ نہیں ملتا بلکہ معاملہ یہ ہے کہ ذیابیطس کا شکار ہو جانے والے دبلے مریضوں میں صحت کے مسائل پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ مرسیڈیز کارنتھون کا کہنا ہے،’امکاناً ان افراد میں ذیابیطس کے عارضے کے جنم لینے کے امکانات جینیاتی طور پر بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے مریضوں میں اموات کی شرح بھی بہت زیادہ ہوتی ہے‘۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ایک اوسط وزن والے ذیابیطس کے مریض میں موت کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

اس طبی تجربے میں دو ہزار چھ سو سے زائد افراد کو شامل کیا گیا تھا۔ ان میں تجربے کے دوران ’ٹائپ ٹو‘ ذیابیطس نے جنم لیا۔ ان میں سے 12 فیصد مرض کی تشخیص کے وقت اوسط وزن کے حامل تھے۔

Symbolbild Diät
ریسرچ کے دوران یہ پتہ چلا کہ زیادہ وزن والے افراد کے مقابلے میں ہلکے وزن والے یا دبلے پتلے افراد کی اموات کے امکانات دو گنا تھےتصویر: Fotolia/Gorilla

ماہرین کے مطابق ذیابیطس کے حامل فربہ یا زیادہ وزن والے لوگوں کی سالانہ شرح اموات ڈیڑھ فیصد جبکہ ایسے ہی دبلے مریضوں کی 2.8 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

امراض قلب کا سبب بننے والے متعدد عوامل جیسے کہ عمر، فشار خون، ہائی کولیسٹرول اور تمباکو نوشی کے بارے میں کی جانے والی ریسرچ کے دوران یہ پتہ چلا کہ زیادہ وزن والے افراد کے مقابلے میں ہلکے وزن والے یا دبلے پتلے افراد کی اموات کے امکانات دو گنا تھے۔ ایسے ہی نتائج دل کی بیماریوں کے سبب ہونے والی ان اموات کے بارے میں کی جانے والی ریسرچ سے بھی نکلے، جن کا تعلق موٹاپے سے سمجھا جاتا ہے۔

کارنتھون کے بقول،’یہ سب کافی غیر متوقع تھا‘۔ تاہم کارنتھون نے کہا ہے کہ یہ امر ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ’ذیابیطس ٹو‘ کے نارمل وزن کے حامل مریضوں کا مؤثرعلاج کس طرح کیا جائے۔ تاہم وزن قابو میں رکھنے کو کارڈیو ایکسرسائزز یا دل کی مشقوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔

کارنتھون کے مطابق معمر افراد اور ایشیائی باشندوں میں ذیابیطس کی تشخیص کے وقت یہ امکانات زیادہ ہوتے ہیں کہ ان کا وزن کم یا زیادہ نہیں بلکہ معمول کے مطابق ہو گا۔ اس لیے ان کا مشورہ ہے کہ ڈاکٹروں کو اس مرض میں مبتلا ایسے مریضوں کے بارے میں زیادہ محتاط رہنا چاہیے، جو موٹاپے کا شکار نہیں ہیں۔

km/aa (Reuters)