1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردی کے خلاف پاکستان کو مدد کی ضرورت ہے، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

فلوريان وائیگنڈ / عاصم سلیم11 جون 2014

پاکستان کے جنوبی شہر کراچی کے بين الاقوامی ہوائی اڈے پر ہونے والے حاليہ خونريز حملے نے ايک مرتبہ پھر يہ ثابت کر ديا ہے کہ پاکستان دہشت گردی سے متعلق اپنے مسائل سے نمٹنے سے قاصر ہے۔

https://p.dw.com/p/1CGFq
تصویر: Reuters

ڈی ڈبلیو کے شعبہ پشتو اور دری کے سربراہ فلوريان وائیگنڈ نے ایک تبصرے میں لکھا ہے کہ پاکستان کو بيرونی مدد کی ضرورت ہے نہ کہ صرف عسکری تعاون کی۔ فلوريان وائیگنڈ کہتے ہیں کہ ايسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں کسی دہشت گردانہ حملے کی صورت ميں پڑوسی ملک پر انگلياں اٹھانا ايک فوری رد عمل بن گيا ہے اور ايسا ہی کچھ کراچی ميں ہونے والے حاليہ حملے کے بعد بھی ہوا۔ ابھی مسلح تصادم جاری ہی تھا کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے ايسی رپورٹيں نشر کرنا شروع کر ديں کہ حملہ آوروں کے ہتھيار بھارتی ساخت کے تھے۔ تاہم يہ غلط ثابت ہوا۔ کچھ ہی گھنٹوں بعد پاکستانی طالبان نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی۔ اب يہ بات واضح ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر ميں ہونے والے اس منظم حملے کی وجوہات داخلی ہی ہيں۔

اسلام آباد حکومت اور طالبان جنگجوؤں کے درميان مہينوں سے جاری امن مذاکرات اب ناکام ہو چکے ہيں۔ مسلح تصادم جاری ہے۔ پاکستانی فضائيہ افغانستان کی سرحد سے ملحقہ علاقوں ميں طالبان کی پناہ گاہوں کو ٹھکانہ بنا رہی ہے جبکہ طالبان نے کراچی کے ہوائی اڈے پر ايک اور حملہ کر ڈالا۔

Deutsche Welle REGIONEN Asien Paschtu Dari Florian Weigand
ڈی ڈبلیو کے شعبہ پشتو اور دری کے سربراہ فلوريان وائیگنڈتصویر: DW/P. Henriksen

وائیگنڈ اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ پاکستانی فوج اور خفيہ سروس اب يہ سوچ سکتی ہیں کہ آيا علاقائی طاقت کے حصول کے اس کھيل ميں طالبان کو آستين ميں رکھنا درست حکمت عملی تھی؟ پاکستان نے اپنے پڑوسی ممالک بھارت اور افغانستان سے تباہ ہو جانے کے خدشے کی بنياد پر خفيہ طور پر اور مسلسل طالبان کو پنپنے ديا۔ کابل حکومت اور اس کے مغربی اتحاديوں کے ليے ايک پُرخار درخت ہونے کے باوجود پاکستان نے يہ عمل اس ليے جاری رکھا کيونکہ وہ افغانستان ميں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا تھا۔

اب ايسا وقت آ گيا ہے کہ طالبان، حکومت پاکستان کی ایک نہیں سنتے۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ جہاں افغانستان ميں اپريل ميں منعقدہ عام انتخابات ميں افغان شہريوں نے طالبان کی دھمکيوں کے باوجود ووٹ ڈالنے کے ليے لمبی لمبی قطاريں لگا کر طالبان کو مسترد کر ديا، وہيں پاکستان ميں يہ طالبان دن بدن مضبوط تر ہوتے جا رہے ہيں۔

اپنے تبصرے میں وہ مزید کہتے ہیں کہ پاکستان اب اس ’جادوگر‘ کا انتظار کر رہا ہے، جو آ کر اس بھيانک خواب کو ختم کرے۔ تشدد کے خاتمے کے ليے لڑاکا طياروں کو قبائلی علاقوں کی طرف بھيجنا کارآمد طريقہ کار نہيں ہے۔ کراچی ايئر پورٹ پر تازہ حملہ دوبارہ يہی بات ثابت کرتا ہے کہ روايتی مسلح افواج گوريلا جنگ نہيں جيت سکتيں۔ وائیگنڈ کے مطابق پاکستانی فوج کو اس سلسلے ميں عراق اور افغانستان ميں امريکی فوج کے تجربات سے سبق سيکھنا چاہيے۔ دوسری جانب شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات ايک کڑوی گولی کے مساوی ہے اور مشکل سے ہی ديرپا کاميابی کا سبب بنتے ہيں۔

وائیگنڈ زور دیتے ہیں کہ پاکستانی حکومت کو قیام امن کے ليے ديگر ذرائع اپنانا ہوں گے، جن ميں سے ايک شدت پسندی کے گڑھ مانے جانے والے علاقوں ميں معاشی ترقی ہے۔ بنيادی ڈھانچے ميں بہتری، طبی سہوليات کی دستيابی اور توانائی کی دستيابی سے شدت پسندوں کی کارروائياں متاثر ہوں گی۔ اور يہيں عالمی برادری کی ضرورت ہے کيونکہ اس مخصوص خطے ميں امن کا قيام عالمی سطح پر بھی اہميت کا حامل ہے۔