دھرتی ماں پر بڑھتا بوجھ: ’اَرتھ اوور شُوٹ ڈے‘
8 اگست 2016انسان کی معدنی وسائل سے استفادے اور زمین کی اُتنے ہی وسائل دوبارہ پیدا کرنے کی صلاحیت کا ریکارڈ رکھے جانے یا دوسرے لفظوں میں ’اَرتھ اوور شُوٹ ڈے‘ منانے کا آغاز 1987ء میں ہوا۔ تب امریکا، سوئٹزرلینڈ اور بیلجیم میں قائم ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک ’گلوبل فُٹ پرنٹ نیٹ ورک‘ کے زیر اہتمام یہ دن اُنیس دسمبر کو منایا گیا۔ تب سے اب تک معدنی وسائل کے استحصال کی رفتار ہر سال تیز تر ہوتی چلی گئی ہے۔
’گلوبل فُٹ پرنٹ نیٹ ورک‘ کے بانی ارکان میں شامل ماتھِیس واکر ناگل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ ایک طرح سے ویسا ہی حسابی عمل ہے، جیسا کہ کوئی کسان اپنی کاشتکاری کے حوالے سے کیا کرتا ہے: ’’ہم بھی ماپتے ہیں کہ ماحولیاتی طور پر پیداوار دینے والا رقبہ کتنا ہے۔ جن چیزوں پر انسان کا انحصار ہے، جیسے کہ اورنج جُوس، آلو یا روئی وغیرہ، ان کی پیداوار کے لیے کتنا رقبہ درکار ہے۔ ہم فطرت سے انسان کی طلب کا موازنہ اس بات سے کرتے ہیں کہ کس قدر فطرت درحقیقت دستیاب ہے۔‘‘
اس موازنے میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ فطرت میں انسان کے معدنی ذخائر جلانے سے پیدا شُدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کی کتنی صلاحیت ہے: ’’ضروری ہے کہ ہم جنگلات کے لیے زیادہ رقبہ مختص کریں۔‘‘
پیرس منعقدہ ماحولیاتی کانفرنس میں عالمی رہنماؤں نے زمینی درجہٴ حرارت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔ ماتھِیس واکر ناگل کے مطابق اس ہدف کے حصول کے لیے انسان کاربن گیسوں کے اخراج کی موجودہ مقدار کو بیس سال سے زیادہ برقرار نہیں رکھ سکتا، جس کا مطلب یہ ہے کہ توانائی کے معدنی وسائل کوخیر باد کہنے اور مکمل طور پر قابلِ تجدید ذرائع اپنانے کے لیے وقت بہت کم باقی رہ گیا ہے۔
اس سال کے اوور شُوٹ ڈے کا مطلب یہ ہے کہ اس سال یکم جنوری سے لے کر آٹھ اگست تک انسان اُتنے معدنی وسائل خرچ بھی کر چکا ہے، جتنے کہ زمین پورے سال میں پیدا کر سکتی تھی: ’’اگر پوری دنیا اُس معیار کی زندگی گزارنا چاہے، جیسے لوگ جرمنی میں گزار رہے ہیں تو اس کے لیے ہمیں تین ’زمینیں‘ (سیارے) درکار ہوں گے۔‘‘
اُنہوں نے کہا کہ بلاشبہ ایک اچھی زندگی گزارنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن ہمیں اپنے سیارے کی بھی فکر کرنی چاہیے: ’’ویسے تو ہر کوئی زمین کی بہتری کا سوچتا ہے لیکن اس کے لیے کوئی اپنا طرزِ زندگی ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔‘‘