1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دو عالمگیر وباؤں، دو عالمی جنگوں کے باوجود زندگی سے بھرپور

15 فروری 2021

’’انسان موت سے ڈرتا تب ہے جب زندگی اسے مسلسل مصروف اور جہد میں نا رکھے۔‘‘ یہ بات جرمنی کی بزرگ ترین خواتین میں سے ایک مِینا ہیہن نے اپنی زندگی کے پہلے انٹرویو میں کہی۔ انہوں نے دو روز قبل اپنی 108 ویں سالگرہ منائی۔

https://p.dw.com/p/3pNTg
تصویر: Marijan Murat/dpa/picture alliance

مِینا ہیہن (Mina Hehn) 1914ء میں شروع ہونے والی پہلی عالمی جنگ سے بھی ایک سال پہلے 1913ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ دو روز قبل ہفتے کے روز انہوں نے اپنی 108 ویں سالگرہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے ایسے منائی کہ اس تقریب کی مہمان صرف ایک ہی خاتون تھیں، مِینا کی 82 سالہ بیٹی۔

دو عالمی وبائیں اور دو عالمی جنگیں

جنوبی جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ میں اشٹٹ گارٹ شہر کی رہنے والی مِینا کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں مجموعی طور پر کروڑوں انسانوں کی موت کی وجہ بننے والی دو عالمگیر وبائیں اور دو عالمی جنگیں دیکھ چکی ہیں۔

جرمنوں کی اوسط متوقع عمر میں مسلسل اضافہ، عورتیں مردوں سے آگے

وہ ابھی تک زندگی سے اتنی بھرپور اور اپنے معمولات اور عادات کی اتنی پابند ہیں کہ کوئی بھی دوسرا انسان انہیں دیکھتے ہوئے رشک ہی کر سکتا ہے۔

مِینا اشٹٹ گارٹ میں بزرگ شہریوں کی ایک رہائش گاہ میں رہتی ہیں اور جانتی ہیں کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا اب تک پوری دنیا میں کس طرح لاکھوں انسان کی موت اور کروڑوں کے بیمار ہو جانے کی وجہ بن چکی ہے۔

انہوں نے 1918ء میں پھیلنے والی اور لاکھوں انسانوں کی موت کی وجہ بننے والی ہسپانوی فلو کی عالمی وبا بھی دیکھی تھی۔ تب ان کی عمر پانچ برس تھی۔

مرچ اور سیکس سے دور رہو تو عمر لمبی، معمر ترین یوگی

وہ یہ بھی دیکھ چکی ہیں کہ کس طرح دو مرتبہ عالمی جنگوں میں کروڑوں انسان مارے گئے اور ان کا اپنا ملک جرمنی بھی بری طرح تباہ ہو گیا تھا۔

طویل العمری کا راز

مِینا ہیہن نے اپنی سالگرہ کے بعد جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو جو انٹرویو دیا، وہ ان کی زندگی کا پہلا انٹرویو تھا۔

انہوں نے بتایا کہ وہ نا شراب پیتی ہیں، نا سگریٹ نوشی کرتی ہیں اور نا ہی چاکلیٹ کھاتی ہیں، ''میں کافی زیادہ کام کرتی ہوں، خود کو زندگی کے ساتھ مصروف رکھتی ہوں اور باقاعدگی سے سیر کے لیے جاتی ہوں۔‘‘

دنیا کی عمر رسیدہ ترین خاتون کی رحلت

جرمن علاقے صوابیہ کی یہ خاتون اپنی زندگی میں خود انحصاری کی اتنی عادی ہیں کہ تین سال پہلے تک وہ کسی اولڈ ہوم میں منتقلی پر تیار ہی نہیں تھیں۔

وہ 105 برس کی ہو جانے کے بعد بھی اپنے گھر میں ہی رہائش پذیر تھیں اور اپنے سارے کام خود ہی کرتی تھیں۔

ریشے دار غذا، طویل العمری کا باعث

پسندیدہ اخبار

مِینا ہیہن کے بارے میں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ وہ گ‍زشتہ تقریباﹰ 95 برسوں سے ہر روز صرف ایک ہی اخبار پڑھتی ہیں اور وہ بھی شروع سے لے کر آخر تک۔ ان کا یہ پسندیدہ اخبار ان کے آبائی شہر سے شائع ہونے والا روزنامہ 'اشٹٹ گارٹ نیوز‘ ہے۔

جرمنی میں 1913ء میں پیدا ہونے والی عورتوں کی اوسط عمر 60 سال تھی۔ لیکن مِینا اس اوسط عمر سے بھی تقریباﹰ نصف صدی زیادہ جی چکی ہیں۔

موت کا ڈر اور وطن سے محبت

اس سوال کے جواب میں کہ آپ کے لیے اپنا وطن کتنا اہم ہے، مِینا ہیہن نے کہا، ''بہت اہم۔ وطن صرف ملک ہی نہیں، آبائی شہر اور آبائی علاقہ بھی ہوتا ہے۔ وطن سے دور کچھ بھی اتنا خوبصورت نہیں ہوتا، جتنا وطن میں۔‘‘

طویل العمری اور انسانی جینیاتی خلیے

بڑھاپے میں موت کے خوف سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ''موت کا خوف؟ نہیں، اتنا وقت نہیں ہوتا۔ انسان موت سے ڈرتا تب ہے جب زندگی اسے مسلسل مصروف اور جہد میں نا رکھے۔ میں خود کو اپنے معمولات میں مصروف رکھتی ہوں۔ اب تک تو مجھے موت کا ڈر نہیں ہے۔ کبھی بعد میں دوبارہ پوچھیے گا، ہوا تو میں بتا دوں گی۔‘‘

م م / ک م (ڈی پی اے)