1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دوسرے مرحلے کی ضرورت پڑے گی، افغان صدارتی امیدوار زلمے رسول

عاطف بلوچ9 اپریل 2014

افغان صدارتی انتخابات کے ایک اہم امیدوار زلمے رسول نے کہا ہے کہ دستیاب معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کے دوسرے مرحلے کی ضرورت پڑے گی کیونکہ کوئی بھی صدارتی امیدوار مطلوبہ پچاس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔

https://p.dw.com/p/1Be5E
تصویر: Reuters

شورش زدہ ملک افغانستان میں پانچ اپریل بروز ہفتہ منعقد ہوئے صدارتی انتخابات کے تین مرکزی امیدواروں میں شمار کیے جانے والے سابق وزیر خارجہ زلمے رسول نے ایسے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ ان صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار حتمی برتری حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔ اگرچہ متعدد تجزیہ نگار اس طرح کی پیش گوئیاں پہلے ہی کر چکے ہیں تاہم زلمے رسول ایسے پہلے صدارتی امیدوار ہیں، جنہوں نے براہ راست ایسا بیان جاری کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان کے حامیوں نے دوسرے مرحلے کے انتخابات کی تیاری کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔

PT Präsidentschaftskandidaten für die Wahlen in Afghanistan 2014
افغان صدارتی انتخابات میں آٹھ امیدوار میدان میں اترے

افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن کے مطابق صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج چوبیس اپریل کو عام کیے جائیں گے جبکہ حتمی نتائج کا اعلان چودہ مئی کو کیا جائے گا۔ اگر صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار مطلوبہ پچاس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا تو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے مابین حتمی انتخابی مقابلہ اٹھائیس مئی کو ہو گا۔ انتخابات کے پہلے مرحلے میں مجموعی طور پر آٹھ امیدوار میدان میں اترے۔ یاد رہے کہ موجودہ صدر حامد کرزئی دو مرتبہ صدر منتخب ہو چکے ہیں اور آئینی تقاضوں کے مطابق تیسری مرتبہ امیدوار نہیں ہو سکتے تھے۔

افغانستان کے ان تاریخی انتخابات کو عالمی سطح پر ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ طالبان کی طرف سے دھمکیوں کے باوجود ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے افغانستان کے نئے رہنما کے انتخاب کے لیے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔ انتخابات سے قبل ایسے خدشات تھے کہ ممکنہ تشدد کے خوف کی وجہ سے شاید اس مرتبہ بھی عوام ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں کا رخ نہیں کریں گے۔

زلمے رسول نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ انتخابی عمل کے دوران ’بڑے پیمانے پر فراڈ‘ بھی ہوا ہے تاہم ان کی طرف سے یہ تفصیل نہیں بتائی گئی ہے کہ کس طرح کی دھاندلی کی گئی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اسے تین ہزار شکایات موصول ہوئی ہیں، جن میں سے نصف کا باقاعدہ طور پر اندراج کرایا گیا ہے جبکہ باقی ماندہ شکایات صرف ٹیلی فون پر ہی کی گئی ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق متعدد صدارتی امیدواروں نے انتخابی عمل کے دوران حکومتی دخل اندازی اور ایک ہی شخص کی طرف سے متعدد ووٹ ڈالے جانے جیسی شکایات کی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان نادر محسنی نے بھی اعتراف کیا، ’’میں کہہ سکتا ہوں کہ ( انتخابی عمل کے دوران) فراڈ اور تشدد ہوا ہے۔‘‘

دوسری طرف ان انتخابات کے دیگر دو فیورٹ امیدواروں عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی احمدزئی دونوں نے کہا ہے کہ وہ پہلےمرحلے میں ہی مطلوبہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ افغانستان میں پانچ اپریل کو صرف صدارتی الیکشن ہی نہیں بلکہ صوبائی کونسلوں کے لیے بھی رائے دہی عمل میں آئی تھی۔ اس دوران ملک بھر میں بیس ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے، جن میں سے کچھ پولنگ بوتھ انتہائی دور دراز اور دیہی علاقوں میں بھی بنائے گئے تھے۔