1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دوسری شادی کی ’دھمکی‘ نہیں چلے گی

صباحت خان
13 جولائی 2020

دوسری شادی کر لوں گا یا میں دوسری شادی کر رہا ہوں۔ یہ وہ جملے ہیں، جو خواتین کبھی نہ کبھی اپنے ہی خاوند کے منہ سے سنتی ہے۔ دوسری شادی کی ’دھمکی اب نہیں چلے گی‘، یہ بل گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/3fDPe
DW Urdu Blogerin Sabahat Khan
تصویر: Privat

قومی اسمبلی میں گھریلو تشدد کے خلاف خواتین، بچوں، بڑوں اور نادار افراد کے تحفظ کا بل وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے بل پیش کیا۔ بل کے مطابق تشدد کے ذمے دار شخص کو کم سے کم چھ ماہ جبکہ زیادہ سے زیادہ تین سال قید اور بیس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکے گا، جرمانہ ادا نہ کر سکنے پر مزید تین ماہ قید ہو سکے گی۔

تشدد میں جذباتی، نفسیاتی اور زبانی استحصال بھی شامل ہو گا۔ اس کے علاوہ دیوانگی یا تہمت لگا کر بیوی کو طلاق یا دوسری شادی کی دھمکی دینا بھی تشدد میں شمار ہو گا، بیوی کو کسی دوسرے شخص سے تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرنا بھی تشدد میں شامل ہو گا۔

سوچیے! اگر عورتوں پر جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی تشدد کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی تو کل دوسرے کے بجائے ہماری اور آپ کی بیٹی بھی ہو سکتی ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ جب کسی گھر میں خواتین کے ساتھ تشدد کیا جا رہا ہو تو رشتہ دار یا پڑوسی نہیں بولتے۔

 تشدد کے بارے میں مختلف طبقہ ہائے سے تعلق رکھنے والوں سے میری بات چیت ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ کسی دوسرے کی چار دیواری میں کچھ بھی ہو جائے ہمیں حق نہیں کہ کسی کے ذاتی مسائل پر بات کریں۔ اگر کوئی مدد کے لیے جائے بھی تو عورت خود خاموش ہو جاتی ہے،جس سے ہم بھی چپ ہو جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

 عورت اگر تشدد کے خلاف خود آواز نہیں اٹھاتی تو تشدد کرنے والوں کو مزید ہمت ملتی ہے۔ ایک خاتون وکیل کا کہنا تھا کہ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ خواتین قانون کے بارے میں شعور نہیں رکھتیں اور قانون کا سہارا لینے سے گریز کرتی ہیں کیوں کہ گھر میں واپسی کے راستے مستدود ہو جاتے ہیں، جس کی بڑی وجہ ملک میں عدالتی نظام  کی خرابیوں کی وجہ سے کئی سالوں تک مقدمات چلتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون کے بارے میں آسان زبان میں آگاہی دینے کی لیے بھی اقدامات کرنے چاہئیں۔

گھریلو تشدد ہمارے معاشرے کے ہر تین میں سے دو گھروں کی تلخ حقیقت ہے۔ سوال یہ ہے کہ گھریلو تشدد آخر عورت کے حصے میں ہی کیوں آتا ہے؟ عورت کو کب تک جسمانی، زبانی، معاشرتی، معاشی اور نام نہاد ثقافتی رویوں کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا؟

یہ بھی پڑھیے:

مویشی منڈی سے خرید لایا ہوں ... ہم اتنے بے حس کیوں ہیں؟

’جہاں محبت کی سزا موت ہے‘

ایک مرتبہ آپ محسوس کریں کہ آپ کو اپنے ہی گھر کے اندر آتے جاتے طعنوں اور غلیظ باتوں سے نوازا جائے، پورے گھر کے کام کرنے کے باوجود آپ پر کھانے کی تنگی کی جائے، پورے خاندان کے سامنے آپ کو مارا پیٹا جائے اور عورت بیچاری نہ کریں، پلیز نہ کریں، کہتی رہ جائے۔

آپ اندازہ کریں کہ گھر کے دیگر افراد دھیمی مسکراہٹ دیں اور چھوٹے بچے دروازوں کے پیچھے سے آپ پر تشدد ہوتا دیکھ کر سہم رہے ہوں اور جب مار پیٹ کر دل بھر جائے تو گالیوں کے ساتھ  ساتھ دوسری شادی کی دھمکی بھی دے دی جائے۔ تو سوچیے، اس لمحے عورت کو جسمانی اور ذہنی تکلیف کے ساتھ ساتھ کتنی جذباتی ٹھیس پہنچتی ہو گی۔

یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرےمیں عورت شادی کے دن سے لے کر موت کی نیند سونے تک اس ڈر اور خوف کی تکلیف میں گزارتی ہے کہ کسی روز سوکن کا دکھ بھی گھر کی دہلیز پر نہ قدم رکھ دے۔

 حالات اور واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر، بیٹے کی امید سے  یا اولاد نہ ہونے کی وجہ سے عورتیں جسمانی اور جذباتی دھمکیوں کا شکار رہتی ہیں لیکن گھر برباد نہ ہو جائے، والدین کی جانب سے مدد نہ ہونے یا ملازمت یا ہنر نہ ہونے کی وجہ سے تشدد برداشت کرتی جاتی ہیں۔

اس بل کا منظور ہونا ابھی باقی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان میں قانون تو بنتے آئے ہیں لیکن عمل درآمد کا ہمیشہ ہی فقدان رہا ہے۔ کیا یہ مسودہ قانون کی شکل اختیار کر پائے  گا؟ اگر ہاں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس پر عمل درآمد کیسے ہو گا؟ ایسا قانون اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہو گا۔