1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’دنیا یمنی باشندوں کی حالت زار کو نظر انداز نہ کرے‘

13 مارچ 2022

ریڈ کراس کی ایک اعلیٰ اہلکار نے سالوں سے جنگ، بد امنی، بھوک اور قحط کے شکار مشرق وسطیٰ کے ملک یمن کے انسانوں کی حالت زار کو بھول نہ جانے اور یمن کے لیےامداد کا کام جاری رکھنے کی اپیل بھی کی ہے۔

https://p.dw.com/p/48N6s
Jemen | Jemeniten auf der Flucht vor Kampfhandlungen
تصویر: Reuters/A. Zeyad

 

ریڈ کراس کے اہلکاروں نے دنیا کے مختلف ممالک سے اپپیل کی ہے کہ جنگ سے تباہ حال عرب ملک یمن کی طرف سے اپنی توجہ نہ ہٹائیں اور یمن دنیا کی نظروں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے۔ ریڈ کراس نے دنیا بھر کے ممالک کی توجہ ایک بار پھر ایک اس بحران زدہ ملک کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کے ساتھ ریڈ کراس نے یمن کے لیے امداد کا کام میں رکاوٹ کی نشاندہی کی۔ یمن اس وقت یوکرین اور روس کے تنازعے کے سبب گندم جیسی بنیادی غذا کی سپلائی منقطع ہونے سے مزید بھوک کا سامنا کر رہا ہے۔ ریڈ کراس کے اہلکاروں نے یمنی قوم کو مشرق وسطیٰ کی غریب ترین قوم قرار دیا ہے۔

سعودی عسکری اتحاد نے یمن کے ڈرون کنٹرول سسٹم کو نشانہ بنایا

ثالثی کی کوششیں

ریڈ کراس کی انٹرنیشنل کمیٹی برائے یمن کی سربراہ کتھیرینا رٹس نے جمعے کو اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ان کا ادارہ حوثی باغیوں اور سعودی قیادت میں قائم ہونے والی اتحادی جلا وطن حکومت کی جانب سے لڑنے والی فورسز کے مابین مستقبل کے قیدیوں کے ممکنہ تبادلے کے موضوع  پر بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم کئی سالوں کی جنگ کے دوران قیدیوں کا کوئی تبادلہ عمل میں نہیں آیا کیونکہ یہ جھڑپیں اور لڑائی تیل سے مالا مال شہر مارب اور متعدد محاذوں کے ارد گرد کے علاقوں میں شدت اختیار کر چُکی ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک بیان دیتے ہوئے کیتھیرینا رٹس کا کہنا تھا،'' میرے خیال میں یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان نہتے انسانوں کی ضروریات کو منصفانہ طور پر پورا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔‘‘ ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ یوکرین کی جنگ کے متاثرین اور یمنی جنگ سے تباہ حال انسانوں کی ضروریات پوری کرنے کے معاملے میں انصاف اور برابری سے کام لیا جائے۔ رٹس نے کہا،'' میرا خیال ہے کہ سوال یہ نہیں کہ یہ یوکرین ہے یا نہیں۔ اب تو یہ معاملہ یوکرین، یمن، شام، عراق، کانگو وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ کا ہے۔ ہمیں تمام بحرانوں پر نظر رکھنی ہے اور اپنے توجہ کو ایک سے دوسری طرف شفٹ نہیں ہونے دینا چاہیے۔‘‘

یمنی جنگ متحدہ عرب امارات تک کیسے پہنچی؟

 

Jemen Angriff auf Schulbus in Saada
سعودی عسکری اتحاد کے صعدۃ میں ایک اسکول بس پر فضائی حملے کے بعد کا منظرتصویر: Getty Images/AFP

 یمن کی جنگ کا پس منظر

2014 ء میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے یمن کے دارالحکومت صنعاء پر قبضہ کر لیا تھا۔ 2015 ء میں سعودی قیادت میں قائم اتحادی فورسز نے ملک بدر ہونے والی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے جنگ میں کود پڑیں، تب سے یمن دنیا کے بدترین ممالک میں سے ایک بنتا چلا گیا۔ یمن کا انسانی بحران ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسانوں کو نگل چُکا ہے۔ ' آرمڈ کُنفلکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا پروجیکٹ‘ کے اندازوں کے مطابق اب تک کم از کم ایک لاکھ پچاس ہزار انسان لقمہ اجل بن چُکے ہیں جس میں یمنی شہری اور جنگجو دونوں شامل ہیں۔ حالیہ دنوں میں یمن کے تنازعے میں شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد 14 ہزار پانچ سو بتائی جا رہی ہے۔

دنیا کے اربوں ضرورت مند انسانوں کے لیے امداد کی اشد ضرورت

سعودی فضائی حملوں میں بھی سینکڑوں یمنی باشندے ہلاک ہو چُکے ہیں اور یہ حملے اس  تباہ حال ملک کے بنیادی ڈھانچوں کو بھی تباہ کر چُکے ہیں۔ اُدھر حوثی باغیوں نے بچوں کو بطور سپاہی استعمال کر رہی ہے اور ملک بھر میں بلا امتیاز بارودی سرنگیں بچھا رکھی ہیں۔

تباہ حال قوم پر کورونا کی آفت

جنگ اور قحط سے دوچار یمنی باشندوں کو حالیہ سالوں میں کورونا جیسے موذی وائرس نے بھی نہ چھوڑا۔ اس کے ساتھ ساتھ افریقی ممالک سے ہجرت کر کے سعودی عرب تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے افریقی تارکین وطن کسی طرح یمن عبور کر کے سعودی عرب پہنچنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اس سے بھی یمن کی صورتحال میں مزید خرابی پیدا ہے۔ یمن میں بھوک اور قحط ہے جبکہ پڑوسی ملک سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔

یمن: اقوام متحدہ کا متحارب گروپوں سے مذاکرات شروع کرنے پر زور

Jemen Humanitäre Lage - Wassermangel
صنعاء میں پانی کی قلت کے شکار بچےتصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab

یوکرین کے خلاف روسی فوجی آپریشن نے یمن کے حالات کر مزید خراب کر دیا ہے۔ یمن اپنی گندم کی ضروریات پوری کرنے کے لیے قریب 40 فیصد روس اور یوکرین سے حاصل کرتا تھا۔ ریڈ کراس کی انٹر نیشنل کمیٹی کی یمنی وفد کی سربراہ کتھیرینا رٹس کے بقول،''یمن میں گندم کی سپلائی میں کمی سے نمٹنے کا میکینزم بہت ہی محدود ہے، میرے خیال میں یہ سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔‘‘

یمن میں دس ہزار بچے ہلاک یا معذور ہو چکے ہیں

قیدیوں تک رسائی

دریں اثناء ریڈ کراس قیدیوں تک رسائی  جاری رکھے ہوئے ہے۔ ریڈ کراس کی انٹرنیشنل کمیٹی کی یمن کے لیے دستے کی سربراہ کتھیرینا رٹس کے مطابق حوثی ملیشیا کے زیر قبضہ صنعاء کی حکومت اور عدن میں قائم یمنی حکومت کے متحارب فریقین نے 2020 ء میں بڑے پیمانے پر قیدیوں کا تبادلہ کیا تھا مگر اُس کے بعد اس نوعیت کا کوئی تبادلہ پھر نہ ہو سکا۔ رٹس کے بقول 2018 ء میں اسٹاک ہوم میں فریقین کے مابین ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت 15 ہزار قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق بھی ہوا تھا۔ کتھیرینا رٹس کہتی ہیں،''فریقین کے مابین مکالمت جاری ہے، مذاکرات کھی رُکے نہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ بہت اہم امر ہے کہ فریقین کو مذاکرات کی میز پر مکالمت میں مصروف رکھا جائے۔‘‘

 

ک م/ ع ح )  اے پی ای(