دنیا کی طویل ترین سرنگ ’گوٹہارڈ بیس ٹنل‘ کھول دی گئی
11 دسمبر 2016اتوار کے روز سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورچ سے ایک مسافر بردار ریل گاڑی ملک کے جنوب میں واقع شہر لُوگانو کے لیے روانہ ہوئی۔ یہ سرنگ پہاڑی سلسلے ایلپس کوکاٹ کر بنائی گئی ہے۔ اس طرح اب بحیرہء روم اور بحیرہء شمالی کے درمیان واقع اہم یورپی شہروں کے مابین تیز ترین سفر ممکن ہو گیا ہے۔
اب روزانہ تقریباً 50 مسافر بردار اور 260 تک مال بردار ریل گاڑیاں اس سرنگ سے گزر سکیں گی۔ حفاظتی انتظامات کے تحت مسافر بردار ریل گاڑیاں سرِدست زیادہ سے زیادہ محض دو سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہی کی رفتار سے سفر کر سکیں گی جبکہ بعد ازاں انہیں ڈھائی سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی سفر کرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔
ستاون کلومیٹر طویل اس سرنگ سے گزرنے میں بیس منٹ سے بھی کم وقت صرف ہوتا ہے۔ اس سرنگ کی وجہ سے شمال سے جنوب کی جانب سفر میں اب نصف گھنٹے سے زیادہ کی بچت ہو سکے گی۔
اس سرنگ کے افتتاح کی شاندار تقریب تقریباً چھ مہینے پہلے منعقد ہوئی تھی۔ تب سوئٹزرلینڈ کے صدر یوہان شنائڈر نے کہا تھا، ’’یورپ اور سوئٹزرلینڈ میں بڑی بڑی کامیابیوں کا حصول ابھی بھی ممکن ہے۔‘‘ تب سوئس صدر کی ہدایت پر پانچ پانچ سو مسافروں کو لے کر دو ریل گاڑیاں شمالی اور جنوبی سمت سے اس سرنگ میں داخل ہوئی تھیں۔ ان مسافروں میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ اور سابق اطالوی وزیر اعظم ماتیو رینزی بھی شامل تھے۔
گوٹہارڈ بیس ٹنل کا ایک مقصد جرمنی، اٹلی اور سوئٹزرلینڈ کے بڑے صنعتی شہروں کو ایک دوسرے سے جوڑنا ہے۔ سترہ برسوں میں مکمل ہونے والی اس ٹنل پر 12.3 ارب ڈالر کی لاگت آئی ہے۔ اس سے قبل دنیا کی طویل ترین سرنگ ہونے کا اعزاز جاپان کی ’سائیکان ٹنل‘ کے پاس تھا، جو 53.9 کلومیٹر طویل ہے۔
اس سرنگ کا خیال سب سے پہلے سوئٹزرلینڈ کے ایک انجینئر کارل ایڈوآرڈ گرُونر نے تقریباً ستّر سال پہلے 1947ء میں پیش کیا تھا۔
ماہرین کے مطابق اس سوئس ٹنل کی وجہ سے مال بردار ٹرینوں کے ذریعے سامان کی ترسیل 2030ء تک دوگنی ہو سکتی ہے۔ آج کل اس راستے سے تقریباً ایک ارب ٹن مال ان ممالک کے مابین منتقل کیا جاتا ہے۔