1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا بھر میں آزادی صحافت کی صورتحال

3 مئی 2012

عرب دنیا میں انقلاب نے اگرچہ بہت کچھ بدلا ہے تاہم ابھی بھی صحافیوں کا کام آسان نہیں ہوا۔ ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز جرمنی‘ کی میشائیل ریڈسکے کا کہنا ہے’ مختلف عرب ممالک میں آزادی ء پریس کی صورتحال ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔

https://p.dw.com/p/14oMD
تصویر: Fotolia/sahua d

’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز جرمنی‘ کی ایگزیکیٹو کمیٹی کی ترجمان میشائیل ریڈسکے کے بقول تیونس میں صحافیوں کے لیے کام کرنا اتنا خطرناک نہیں رہا جتنا کے پہلے ہوا کرتا تھا۔ اس کے برعکس شام میں جب سے حکومت مخالف مہم کا آغاز ہوا ہے اور خانہ جنگی کی سی صورتحال پیدا ہوئی ہے، تب سے متعدد صحافی مارے گئے ہیں۔ شام میں صحافیوں کی صورتحال ویسی ہی ہے جیسی چند سال قبل عراق میں تھی۔ میشائیل ریڈسکے کے بقول ’عرب بہار‘ نے بہت سے تنازعات کو جنم دیا ہے۔ اب صحافیوں کو وہاں موجود ہونا پڑتا ہے اور اس وجہ سے انہیں حکومتی حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

عرب بہار کے بعد بھی فضا میں گھٹن باقی ہے

بہت سے ممالک میں عوامی توقعات پوری نہیں ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر مصر میں جہاں عوام بڑی امیدیں لگا بیٹھی تھی وہاں ہمارے اندازوں کے مطابق عوامی توقعات پوری نہیں ہونے کے سبب اس کا گراف تیزی سے گرا ہے۔ اس لیے کہ وہاں فوجی حکومت نئے نئے ہنگامی قوانین پاس کر رہی ہے۔ نیز پریس کی آذادی پھر سے محدود ہو گئی ہے۔ یہ ماننا ہے  میشائیل ریڈسکے کا۔   

Marokko Presse Schild in Fes
مختلف عرب ممالک میں آزادی ء پریس کی صورتحال ایک دوسرے سے بہت مختلف ہےتصویر: picture-alliance/dpa

’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ ہر سال آزادی ء صحافت سے متعلق ایک فہرست منظر عام پر لاتی ہے۔ اس تازہ ترین فہرست میں 179 ممالک شامل ہیں۔ ان تمام ملکوں میں محض صحافیوں ہی کو اس سروے میں شامل نہیں کیا گیا بلکہ محققین، وکلاء اور دنیا بھر کے انسانی حقوق کے لیے سرگرم عناصر کو بھی رکھا گیا ہے۔

اریٹریا سب سے پیچھے

پریس کی آزادی کی صورتحال سے متعلق اس فہرست میں سب سے نیچے اریٹریا ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یہ کہنا ہے ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرزافریقہ‘ کے نگران Pierre Ambroise کا۔ وہ کہتے ہیں کہ اریٹریا صحافیوں کے لیے بدترین جگہ ہے۔ اس افریقی ملک میں پریس کی آذادی کو دس سال قبل ہی کچل دیا گیا تھا۔ اب وہاں تمام صحافی سرکاری میڈیا کے لیے کام کر رہے ہیں۔ انہیں وزرات اطلاعات و نشریات کے تمام احکامات ماننا پڑتے ہیں۔ جو ان کی حکم عدولی کا مرتکب ہو اُس کا مستقبل جیل بن جاتا ہے۔

نمیبیا اور کیپ وردے میں مثبت پیش رفت

افریقی ممالک سے کچھ اچھی خبریں بھی مل رہی ہیں۔ ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز جرمنی‘ کی ایگزیکیٹو کمیٹی کے ترجمان میشائیل ریڈسکے کے بقول ’پہلی بار ہماری فہرست کے سب سے اوپر کے 20 ممالک میں دو افریقی ملک نمیبیا اور کیپ وردے بھی شامل ہیں۔ اس کا تعلق ان دونوں ممالک کی مستحکم سیاسی صورتحال سے ہے‘۔

Logo Reporter ohne Grenzen
’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ ہر سال آزادی ء صحافت سے متعلق ایک فہرست منظر عام پر لاتی ہے

زیر زندان صحافیوں کی سب سے بڑی تعداد چین میں

چین میں آباد بلاگر جیرمی گولڈ کورن کے مطابق انٹرنیٹ اور وائی ُبو جیسی پیشکش ہم انسانوں کو اپنے خیالات کے اظہار کی اجازت دیتی ہے۔ اس وقت وائی بوُ مائیکرو بلاگنگ سروس کا اکاؤنٹ رکھنے والے چینی باشندوں کی تعداد قریب 300 ملین ہے۔ صاحفت پر لگی قدغن کے باوجود گولڈ کورن خبر رسانی کا کام انجام دے رہا ہے۔ تاہم چین میں سینسر شپ کے سبب صحافت کو روایتی ہتھکنڈوں کے ساتھ محدود کر دیا گیا ہے۔

پریس کی آزادی سے متعلق مختلف ملکوں کی فہرست میں دیکھا جائے تو اس میں سر فہرست 8 یورپی ممالک نظر آتے ہیں جن میں فن لینڈ، ناروے ایستونیا، ہالینڈ، آسٹریا، آئس لینڈ، لکسمبرگ اور سوئٹزر لینڈ شامل ہیں۔ جرمنی آزادی ء صحافت سے متعلق ممالک کی اس فہرست میں 16 ویں نمبر پر ہے۔

MüllerMarco/km/hk