1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

درست خبر ہے یا فیک نیوز، پتا کیسے چلایا جائے؟

9 جنوری 2022

بات کووِڈ انیس ہو یا ماحولیاتی تبدیلیاں، مہاجرت ہو یا کوئی اور موضوع، سوشل میڈیا پر حقائق کے مقابلے میں فیک نیوز چھ گنا زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔ سوال یہ ہےکہ اس کی شناخت کیسے ہو؟ ڈی ڈبلیو فیک چیکنگ ٹیم کے کچھ مشورے۔

https://p.dw.com/p/455Qc
Facebook Schriftzug im Auge
تصویر: Ralph Peters/imago images

گرین پارٹی کی سربراہ اور تب چانسلر کے عہدے کی امیدوار (موجودہ وزیرخارجہ) انالینا بیربوک کے نام سے موسوم ایک بیان اپریل میں فیس بک پر گردش کرتا رہا اور وہ تھا کہ گرین پارٹی اقتدار میں آ کر پالتو جانور رکھنے پر پابندی لگا دیں گی، کیوں کہ وہ بہت زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ بناتے ہیں۔

ڈیجیٹل اسپیس اور ضابطہ اخلاق، معلومات کی ترسیل مگر ذمہ داری سے

فیک نیوز سائٹس بھی گوگل اور ایمازون سے کما رہی ہیں، رپورٹ

برازیل میں سن 2018 کے انتخابات کے دوران وٹس ایپ کے ذریعے دائیں بازو کے عوامیت پسند لیڈر جیئر بالسونارو کے حق میں لاکھوں پیغامات ارسال کیے گئے۔ ان پیغامات میں سے ایک پیغام یہ تھا کہ بائیں بازو کی ورکرز پارٹی کمیونسٹ آمریت کا منصوبہ بنا رہی ہے جب کہ بچوں کے ساتھ جنسی تعلقات کو قانونی بنانا چاہتی ہے۔

کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دنوں میں بھی ایسی''طبی ماہرین‘‘کی ویڈیوز اور پوسٹس کی بھرمار نظر آئی، جو سائنسی حقائق کے یک سر متضاد باتیں کر رہے تھے اور ایسی ویڈیوز کئی بار وائرل بھی ہوئیں۔ ان تمام میں کیا بات مشترک ہے؟ یہ تمام فیک نیوز ہیں اور غلط اطلاعات پر مبنی ہیں۔ یہ یا تو سراسر بے بنیاد ہیں یا جان بوجھ کو لوگوں کے سیاسی خیالات کو متاثر کرنے کی کوشش ہیں، یا پھر زیادہ سے زیادہ کلکس حاصل کرنے کی کوشش۔

فیک نیوز عموماﹰ بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور آج کی ڈیجیٹل دنیا میں ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین ایسے میں قابل اعتبار خبر سے اسے الگ کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کئی مضامین شائع کر چکا ہے۔

ہشیار رہیے

آکسفورڈ یونیورسٹی کے روئٹرز انسٹیٹیوٹ کی تازہ ڈیجیٹل نیوز رپورٹ کے مطابق ایک سروے میں نصف زائد افراد نے بتایا کہ انہوں نے کورونا وائرس سے متعلق حال ہی میں ایک گم راہ کن یا جھوٹی خبر دیکھی ہے۔

کسی خبر کے درست یا غلط ہونے کی جانچ کے لیے کچھ پیمانے سمجھنے ضروری ہیں، پہلا یہ کہ اس خبر کا منبع کیا ہے یا کوئی بات کہنے والا ہے کون؟ دوسرا یہ کیا کہ یہ خبر ممکن بھی ہے؟ یا کیا کہی جانے والی بات کی کوئی منطق بنتی ہے؟ اور میرے یہ خبر آگے شیئر کرنے سے فائدہ کسے ہو گا؟

فیک نیوز کے پیچھے کون؟

فیک نیوز عموماﹰ فیک بک، ٹوئٹر یا انسٹاگرام کی کسی پوسٹ کے ذریعے صارفین تک پہنچتی ہے۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ خبر دینے والے پر نگاہ کی جائے۔ خبر دینے والے کی دلچسپیاں اور خیالات خود آپ پر بہت کچھ آشکار کر دیں گے۔ ان میں سے کئی اکاؤنٹ تو ممکن ہے سوشل بوٹس یا ٹرولز چلا رہے ہوں۔

واٹس ایپ جیسی میسنجر سروسز کے ذریعے جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات پھیلانا ایک اور طریقہ کار ہے۔ برازیلین انتخابات میں واٹس ایپ کے ذریعے فیک نیوز کے پھیلاؤ کا غیرمعمولی طریقہ کار دیکھنے میں آیا۔ واٹس ایپ سے میسج آپ تک پہنچے، تو اسے آگے پھیلانے سے پہلے بھیجنے والے سے یہ پوچھ لیں کہ یہ پیغام اسے کس نے بھیجا۔ زیادہ تر واقعات میں آپ دیکھیں گے کہ بھیجنے والا اس پیغام کے منبع سے واقف نہیں ہو گا اور اسے فقط یہ مسیج فارورڈ کیا ہو گا۔

دعویٰ واقعی سچ بھی ہے؟

انتہائی ضروری ہے کہ کسی فاورڈ مسیج یا کسی اور ٹیکسٹ کو درست ماننے سے قبل اس پر ناقدانہ نگاہ ڈالیں اور اس سلسلے میں اہم سوال یہ اٹھائیں کہ کیا کہی جانے والی بات یا دکھائی جانے والی تصویر واقعی حقیقی بھی ہیں؟ مثال کے طور پر گرین پارٹی کی بیربوک کے حوالے سے پالتو جانوروں سے متعلق بیان۔ فقط اس دعوے کے حقیقی ہونے پر سوال اٹھایا جائے، تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے ک یہ ایک فیک نیوز ہے۔

بغیر تصدیق کے خبر فارورڈ کرنے سے گریز کریں

کسی اطلاع یا خبر کی صورت میں کسی باقاعدہ ادارے یا عہدیدار کے ذریعے اس اطلاع کے بااعتبار ہونے کی تصدیق کریں۔ مثال کے طور پر کورونا سے متعلق معلومات کی تصدیق عالمی ادارہ صحت، جانز ہاپکنز یونیورسٹی یا رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ یا کسی اور سائنسی اور تحقیقی ادارے کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ لیکن اپنے آپ کو میڈیکل ماہرین کہنے والے افراد کی فیس بک یا یوٹیوب ویڈیوز کو بغیر تصدیق کے درست سمجھنا اور پھر انہیں آگے پھیلا دینا خوف ناک عمل ہے۔

حقائق کی جانچ کرنے کے لیے FackCheck.org سمیت Snopes اور full Fact جیسی ویب سائٹ آپ کی مدد کر سکتی ہیں۔

اینس آئیزیلے (ع ت، ع ب)