1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کا ’جلاد‘ ترکی سے گرفتار کر لیا گیا

مقبول ملک16 مئی 2016

مشرقی ترکی میں پولیس کی طرف سے مارے گئے چھاپوں کے دوران جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے سات ایسے مشتبہ ارکان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جن میں اس شدت پسند گروہ کا ایک سینیئر رہنما اور ایک ’جلاد‘ بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Ioag
Islamischer Staat Hinrichtung in Syrien
داعش کے جہادی شام میں اپنے زیر قبضہ بہت سے یرغمالیوں کو انتہائی سفاکانہ انداز میں قتل کر چکے ہیں۔ آئی ایس کی ایک ویڈیو سے لی گئی تصویرتصویر: picture-alliance/ Balkis Press/ABACAPRESS.COM

ترک شہر استنبول سے پیر 16 مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ان سات مشتبہ دہشت گردوں کو مشرقی ترکی کے علاقے ایلازِگ میں مختلف مقامات پر مارے جانے والے چھاپوں کے دوران حراست میں لیا گیا اور ان کے قبضے سے متعدد ہتھیاروں کے علاوہ بہت سی اہم دستاویزات بھی برآمد کر لی گئیں۔

ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی اناطولیہ نے لکھا ہے کہ گرفتار شدگان میں ایک ایسا شدت پسند بھی شامل ہے، جو داعش کا ’جلاد‘ ہے اور جو اپنے نام کے صرف دو ابتدائی حروف F.S. کے ذریعے جانا جاتا ہے۔ دولت اسلامیہ کے اس ’جلاد‘ کے بارے میں ترک حکام کا کہنا ہے کہ اس نے شام میں اس عسکریت پسند گروہ کے زیر قبضہ کئی یرغمالیوں کو انتہائی سفاکانہ طور پر قتل کیا تھا۔

اے ایف پی کے مطابق گزشتہ دو برسوں کے دوران ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادی شام میں اپنے بہت جارحیت پسندانہ پراپیگنڈے کے ایک حصے کے طور پر اور عام لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے اپنے زیر قبضہ بہت سے مقامی اور غیر ملکی یرغمالیوں کو انتہائی ظالمانہ طور پر قتل کر چکے ہیں۔

ترک خبر رساں ادارے دوگان نے لکھا ہے کہ آج گرفتار کیے گئے داعش کے مشتبہ جہادی اس گروپ کے لیے نئے جنگجو بھرتی کرنے کے لیے ابھی حال ہی میں شام سے ایلازِگ پہنچے تھے۔ ترک میڈیا نے ان گرفتاریوں کی اس سے زیادہ کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔

ترکی پر اس کے مغربی اتحادی ملک کافی عرصے تک یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ انقرہ حکومت نے داعش کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات کو بروقت روکنے کے لیے کافی اقدامات نہیں کیے تھے، یہاں تک کہ یہ جہادی شام کے ترکی کے ساتھ سرحد کے قریبی علاقوں تک پر قابض ہو گئے تھے۔

Videostill Mohammed Emwazi alias Dschihadi John
’جہادی جان‘ نامی برطانوی جنگجو جس نے داعش کی طرف سے کئی یرغمالیوں کے سر قلم کیے اور جو شام میں ایک فضائی حملے میں مارا گیا تھاتصویر: Reuters//SITE Intel Group

اس کے برعکس ترکی کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ وہ شام کے ساتھ اپنی سرحد پر سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے طور پر ہر ممکن کوششیں کرتا رہا ہے۔ تاہم سلامتی امور کے متعدد ماہرین کے مطابق انقرہ حکومت نے ان جہادیوں کے خلاف شامی علاقوں میں اور اندرون ملک بھی بھرپور فوجی کارروائیاں اس وقت شروع کیں، جب ترکی میں مسلسل ایسے کئی خونریز حملے دیکھنے میں آئے، جن کی ذمے داری داعش نے قبول کر لی تھی۔

رواں ماہ کے اوائل میں اناطولیہ کی طرف سے شائع کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تب تک ترک حکام ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے 454 مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کر چکے تھے، جن میں سے 190 کو صرف گزشتہ چار مہینوں کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔

اسی دوران ترک مسلح افواج کی طرف سے شام کی ریاستی حدود کے اندر داعش کے مختلف ٹھکانوں پر توپ خانے سے تقریباﹰ ہر روز گولہ باری بھی کی جا رہی ہے۔ ترک دستوں نے اپنی یہ کارروائیاں ترک سرحدی شہر کِیلِس پر داعش کے جنگجوؤں کی طرف سے بار بار کیے جانے والے راکٹ حملوں کے تناظر میں شروع کی تھیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں