1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا میں بم دھماکے میں سات پاکستانی فوجی ہلاک

10 جون 2024

افغانستان سے متصل پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں ایک بم دھماکے میں سات پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے۔ ملکی صدر آصف علی زرداری نے ان ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے 'دہشت گردی کے کینسر کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے‘ کا عزم دہرایا ہے۔

https://p.dw.com/p/4grGK
پاکستان  خیبر پختونخوا  عسکریت پسندوں کے حملوں
پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں حالیہ عرصے میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہےتصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق اتوار نو جون کے روز سات فوجی اہلکار اس وقت ہلاک ہو گئے جب ان کی گاڑی کو افغانستان کی سرحد سے متصل شمال مغربی علاقے میں بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا کہ صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں چھ فوجیوں اور ایک افسر کی موت دیسی ساخت کے ایک بم کے دھماکے میں ہوئی۔

خود کش دھماکے میں ہلاک ہونے والے پانچ چینی انجینیئرز کی لاشیں چین روانہ

پاکستان میں حالیہ حملوں میں افغانوں کے ملوث ہونے کے دعوے غیر ذمہ دارانہ ہیں، طالبان

لکی مروت کے ایک سینئر پولیس افسر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس بم دھماکے میں گاڑی پوری طرح تباہ ہو گئی۔ انہوں نے مزید کہا، ''بم دھماکے سے پہلے اس گاڑی پر فائرنگ بھی کی گئی تھی۔‘‘

صدر زرداری کی طرف سے اظہار تعزیت

پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے ملکی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکت پر دکھ کر اظہار کرتے ہوئے کہا، ''قوم اپنے بیٹوں اور شہداء کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔‘‘

اس دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے صدر زرداری نے ایک بیان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قوم کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔ انہوں نے کہا، ''ہم دہشت گردی کے کینسر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘‘

پاکستان کے بشام میں 'گھناؤنا حملہ بزدلانہ دہشت گردی ہے' سلامتی کونسل

پاکستان میں 2023ء میں ایک دہائی کے سب سے زیادہ خود کش حملے

اس دوران آئی ایس پی آر نے بھی ایک بیان میں کہا ہے، ''اس گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘‘

صوبے خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی اور وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈا پور نے بھی سکیورٹی فورسز پر اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

اتوار کے روز کیے گئے اس حملے کی فی الحال کسی تنظیم نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم اس علاقے میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نامی ممنوعہ عسکریت پسند تنظیم سب سے زیادہ سرگرم ہے اور اکثر سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی رہتی ہے۔

پاکستان کا افغان طالبان پردہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام

عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ

پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں حالیہ عرصے میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق پچھلے سال 29 خودکش حملے کیے گئے اور یہ تعداد 2014ء کے بعد سے سب سے زیادہ تھی۔ ان حملوں میں 329 افراد ہلاک ہوئے۔

جنوری 2023 میں ٹی ٹی پی نے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ایک مسجد میں مبینہ طور پر ایک خود کش بم دھماکہ کیا تھا، جس میں 80 سے زائد پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

پشاور میں انسداد دہشت گردی کے محکمے (سی ٹی ڈی) نے اتوار کے روز ایک رپورٹ میں بتایا کہ صوبے میں پچھلے پانچ ماہ کے دوران دہشت گردی کے 237 واقعات میں 65 پولیس افسران ہلاک اور 86 دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس دوران پولیس نے 117عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا جبکہ 299 دیگر گرفتار کر لیے گئے۔

اسلام آباد حکومت ان دہشت گردانہ حملوں کے لیے کابل میں نئے ملکی  حکمرانوں کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان نے عسکریت پسندوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔

دوسری طرف طالبان حکمران اس پاکستانی الزام کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ غیر ملکی عسکریت پسندوں کو افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ج ا/م م (اے پی، اے ایف پی)