خیبر پختونخوا: سکیورٹی انتظامات اور خواتین کا حق رائے دہی
23 جولائی 2018آئندہ عام انتخابات کے لئے انتخابی مہم ختم ہونے میں چند گھنٹے باقی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تمام امیدواروں کو آج بروز پیر رات بارہ بجے سے قبل انتخابی مہم ختم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ملک بھر کے دیگر علاقوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی انتخابی سرگرمیاں زورں پر ہیں۔ اگر چہ سکیورٹی کی وجہ سے جلسوں اور جلوسوں سے اجتناب کیا گیا ہے تاہم انتخابی مہم کے لئے عوام سے براہ راست رابطے جاری ہیں۔ دوسری جانب پختونخوا کے مختلف علاقوں میں امیدواروں پر ہونے والے حملوں کی وجہ سے ووٹر بھی خوفزدہ ہیں۔
انتخابی امیدواروں کے خواتین مخالف معاہدے
تاہم خوف کی ایک فضا صوبے کے بعض علاقوں کی خواتین پر بھی مسلط کی جا رہی ہے۔ یہ دہشت گرد نہیں بلکہ امیدوار اور ان کے روایتی سپوٹر ہیں، جو ماضی کی طرح اس بار بھی خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لئے روایتی معاہدے کر رہے ہیں۔ ان معاہدوں کے تحت امیدوار آپس میں خواتین کے ووٹ نہ ڈالنے پر متفق ہو جاتے ہیں۔ ایک نجی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان اضلاع میں نوشہرہ، مردان ،کوہستان، بٹ گرام ، باجوڑ اور خیبر پختونخوا کے بعض دیہی علاقے شامل ہیں۔
ان اطلاعات کا نوٹس لیتے ہوئے خیبر پختونخوا کے الیکشن کمشنر پیر مقبول احمد نے ایسے امیدواروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ روایتی معاہدوں کے ذریعے خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے سے باز رہیں۔ پیر مقبول احمد کا کہنا ہے، ’’اگر کسی امیدوار نے خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا تو الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کالعدم قرار دینے اور امیدوار کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے ۔ان خدشات کی وجہ سے تمام ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ڈپٹی کمشنروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ خواتین کی انتخابات میں شرکت کو یقینی بنایا جائے۔‘‘ الیکشن کمیشن کے مطابق خیبر پختونخوا میں خواتین ووٹروں کی تعداد چھیاسٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔
خیبر پختونخوا میں سکیورٹی انتظامات
دوسری طرف پشاور، بنو ں اور ڈیر ہ اسماعیل خان میں انتخابی امیدواروں کے دہشت گردی کا نشانہ بننے کے بعد عام ووٹروں میں بھی جوش و خروش ماند پڑ گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے بدھ کو ہونے والے انتخابات میں ووٹروں کی دلچسپی کم ہی رہے گی لیکن پولیس اور ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے انتخابات کو پرامن بنانے کے لئے تمام تر تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔
ایمرجنسی ریسکیو سروس کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر خطیر احمد کا کہنا ہے، ’’خیبر پختونخوا کے دس حساس اضلاع میں تربیت یافتہ عملے کی تعیناتی عمل میں لائی جا چکی ہے۔ اس عملے کو الیکشن کمیشن نے خصوصی تربیت دی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے مشورے سے حساس علاقوں کے پولنگ سٹیشنوں کے قریب طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے اورکسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے لائحہ عمل تیار کر لیاگیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایمرجنسی ریسکیو کے تمام اہلکاروں کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں۔
اسی طرح الیکشن کو پرامن بنانے کے لئے ضلعی انتظامیہ نے ڈپٹی کمشنر کے آفس میں ماڈل کنٹرول روم بنایا ہے جہاں سے انتخابات کے لئے سکیورٹی کے انتظامات کو مانیٹر کیا جائے گا۔ ڈپٹی کمشنر پشاور عمران شیخ کا کہنا ہے، ’’حساس پولنگ اسٹیشنز میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر دیے ہیں جبکہ پندرہ برانچ دفتروں سے بھی براہ راست رابطہ ہوگا، جن میں پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکار تعینات کئے گئے ہیں جو کسی بھی ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے تیار رہیں گے۔‘‘ اس کے علاوہ الیکشن کے موقع پر صوبہ بھر میں اسلحے کی نمائش پر پابند ی عائد کر دی گئی ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو دی گئی رپورٹ میں خیبر پختونخوا میں سات ہزار تین سو چھپن پولنگ اسٹیشنوں کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ یہ تعداد ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ان حساس پولنگ اسٹیشنوں میں نوے ہزار سے زیادہ سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔