1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا: تحریک انصاف سے وابستہ توقعات

Altaf Ullah Khan14 مئی 2013

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی کامیابی نے نہ صرف صوبائی سیاست میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے بلکہ صوبے میں پہلے سے موجود سیاسی اکائیوں کو قطعاً بے وقعت بھی کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/18Xa4
تصویر: Reuters

پختونخوا کے عوام نے سیاسی عمل کو اپنے اجتماعی فیصلوں کی اساس بنا کر ذہنی پختگی کا ثبوت دیا ہے۔ ان انتخابات میں تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی قوت کے طور پر ابھری ہے اور ساتھ ساتھ اُسے ملک کے تیسرے بڑے صوبے میں حکومت بنانے کا بھی موقع مل رہا ہے۔

اگر تحریک انصاف اس صوبے میں حکومت تشکیل دینے میں کامیاب رہی تو خیبر پختونخوا میں متواتر تیسری دفعہ ایک ایسی سیاسی اکائی کی حکومت بنے گی، جسے سیاست کا تجربہ تو رہا ہے لیکن جسے عملاً اقتدار ملنے کا یہ پہلا موقع ہو گا۔ اس سے قبل متحدہ مجلس عمل اور عوامی نیشنل پارٹی کی سیاسی عمر تو یقیناً تحریک انصاف سے کہیں زیادہ تھی لیکن اُنہیں اقتدار کی سیاست کا موقع پہلی مرتبہ ملا تھا۔

وعدے کرنا آسان، پورے کرنا مشکل

اقتدار یقینی طور پر اپنے ساتھ بہت سی ذمے داریاں بھی لاتا ہے، جن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ایک الگ ذہنی رویے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ووٹ مانگتے وقت دوسری سیاسی اکائیوں میں عیب نکالنا اور مسائل کے حل کے لیے وعدے وعید کرنا سیاسی عمل کا ایک لازمی جزو ہوا کرتا ہے لیکن کامیابی کے بعد ان وعدوں کو پورا کرنا اُتنا آسان نہیں ہوتا، جتنا کہ جلسے جلوسوں میں ببانگِ دہل کیے جانے والے اعلانات میں نظر آتا ہے۔

’سیاسی بساط پر نظر ڈالی جائے تو عمران خان کی تحریک انصاف کہیں بھی گھاٹے میں نظر نہیں آ رہی‘
’سیاسی بساط پر نظر ڈالی جائے تو عمران خان کی تحریک انصاف کہیں بھی گھاٹے میں نظر نہیں آ رہی‘تصویر: Reuters

تحریک انصاف کے لیے یہ کامیابی خوش آئند ضرور ہے لیکن شاید اُس کی قیادت اس کی توقع نہیں کر ر ہی تھی۔ درحقیقت جماعت کے سربراہ عمران خان خود کو مرکز میں حکومت کے لیے ذہنی طور پر تیار کر چکے تھے۔ اُن کی سیاسی حکمت عملی میں بظاہر خیبر پختونخوا اور فاٹا دو ذیلی ترجیحات تھیں، جن کے مسائل کو وہ مرکز میں حکومت ملنے کی صورت میں یا پھر حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھ کر حل کرنا چاہتے تھے۔

موجودہ حقائق تحریک انصاف کی قیادت کی توقعات سے یقیناً مختلف ہوں گے تاہم سیاسی بساط پر نظر ڈالی جائے تو عمران خان کی تحریک انصاف کہیں بھی گھاٹے میں نظر نہیں آ رہی۔ مرکز میں اُن کی حیثیت کافی مستحکم ہے اور ایک صوبے میں حکومت بنانے کا موقع بھی بلا شبہ ایک خوش آئند ابتدا ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہو گا، جو اُن کی نا تجربہ کار اور اقتدار سے نا آشنا ٹیم کو اپنی صلاحیتوں کو آزمانے اور اقتدار کی بھول بھلیوں کے اسرار و رموز سیکھنے میں بہت مدد دے گا۔

مغربی دنیا کی نظریں فاٹا اور خیبر پختونخوا پر

کچھ حلقے ابھی سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا تحریک انصاف ایک ایسے صوبے کے انتظام و انصرام سے انصاف کر سکے گی، جس پر پوری دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں؟ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اس انخلاء نے مغربی دنیا کی نظروں میں فاٹا اور خیبر پختونخوا کو اور بھی زیادہ اہم بنا دیا ہے۔ افغانستان اور خطّے میں امن کا انحصار اسی صوبے اور ملحقہ قبائلی علاقہ جات میں امن اور بہتر حالات زندگی پر ہے۔

’طالبان کے ساتھ مکالمت کی راہ میں سب حائل سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کی کوئی ایک مرکزی اکائی وجود نہیں رکھتی‘
’طالبان کے ساتھ مکالمت کی راہ میں سب حائل سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کی کوئی ایک مرکزی اکائی وجود نہیں رکھتی‘تصویر: picture-alliance/ dpa

امن کے لیے عمران خان کا منصوبہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات اور امریکا کے اثر و رسوخ سے آزاد خارجہ پالیسی پر مبنی ہے۔ آزاد خارجہ پالیسی کا نفاذ تو عمران خان کے براہِ راست اختیار میں نہیں ہو گا کیونکہ مرکز میں میاں نواز شریف اس مرتبہ کسی بھی دوسری سیاسی اکائی کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت نہیں بنانا چاہتے۔ دوسرے نکتے کا تعلق طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے ہے تاہم یہ کام بھی اتنا سہل نہیں ہے، جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔ اگرچہ اس نکتے پر مسلم لیگ نون بھی تحریک انصاف کے ساتھ اتفاق کرے گی لیکن مکالمت کو عملی شکل دینے کی راہ میں بہت سی اندرونی اور بیرونی مشکلات حائل ہوں گی۔ خارجی مشکلات بھی نئی نہیں ہیں لیکن اصل مسئلہ داخلی مسائل ہیں، جن کا تعلق طالبان کے طرز عمل سے بھی ہے۔ اے این پی اور پی پی پی کی گزشتہ حکومت نے بھی خیبر پختونخوا میں اپنے دور کا آغاز انہی کاوشوں سے کیا تھا لیکن اُنہیں کامیابی کی بجائے طالبان کی شدید دشمنی کا سامنا کرنا پڑا۔

طالبان کے ساتھ مکالمت کی راہ میں حائل مشکلات

طالبان کے ساتھ مکالمت میں تاحال ناکامی کے لیے بہت سی وجوہات گنوائی گئی ہیں لیکن غالباً سب سے بڑا مسئلہ طالبان کے ہاں کسی واضح مرکزی اکائی کا نہ ہونا ہے۔ اگرچہ آئے روز تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ایک اکائی کا ذکر سننے میں آتا ہے لیکن اس اکائی کا کوئی چہرہ نہیں ہے۔ کوئی ایسی شخصیت یا ایسا کوئی واضح ڈھانچہ موجود نہیں ہے، جس کے ساتھ بات کی جا سکے اور جس سے گفت و شنید کے نتیجے میں ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے رجوع کیا جا سکے۔ ایسے حالات میں طالبان کے ساتھ اس قسم کے امن مذاکرات عوام کے لیے طفل تسلی اور سیاسی طور پر انوکھے پن کے احساسِ برتری کا باعث تو بن سکتے ہیں لیکن کسی واضح نتیجے تک پہنچنا شاید ناممکن ہو۔

موجودہ حالات میں تحریک انصاف کی قیادت کے لیے یہ ضروری ہے کہ اُس کے پاس کام کرنے کا کوئی واضح لائحہ عمل موجود ہو۔ پارٹی کی موجودہ سیاسی لیڈر شپ کو دیکھا جائے تو کسی معجزانہ تبدیلی کی توقع کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ ایک روز پہلے تک وزارتِ اعلیٰ کے لیے پرویز خٹک کا نام لیا جا رہا تھا، اب فیصلہ اسد قیصر کے حق میں کیا گیا ہے۔ اصولاً تو کسی بڑے نام کا نہ ہونا کوئی بری بات نہیں ہے کیونکہ بڑے بڑے نام اکثر اپنے ساتھ بڑے بڑے مفادات بھی لے کر آتے ہیں۔ تاہم ابھی فوری طور پر ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سطح پر نافذ کرنے کے لیے تشکیل دیے گئے میگا پلانز کو جلد از جلد صوبائی ضرورتوں کے ساتھ ہم آہنگ کر کے انہیں عملی جامہ پہنایا جائے۔

’خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو اولین ترجیح بجلی کی پیداوار اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کے مسئلے کو دینی چاہیے‘
’خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو اولین ترجیح بجلی کی پیداوار اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کے مسئلے کو دینی چاہیے‘تصویر: dpa

بجلی کی پیداوار اور رائلٹی کے مسائل اولین ترجیح

اس سلسلے میں اولین ترجیح بجلی کی پیداوار اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کے مسئلے کو دی جانی چاہیے۔ خیبر پختونخوا میں بجلی پیدا کرنے کے لیے جو تیس سے زیادہ سائٹس موجود ہیں، اُن پر جلد از جلد کام شروع کیا جانا چاہیے تاکہ صوبے اور ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ کالا باغ ڈیم اور خیبر پختونخوا کی بجلی کی رائلٹی کے مسائل بھی ہنگامی بنیادوں پر اور شفافیت کے ساتھ عوام کے سامنے لائے جائیں تاکہ عوام کو واضح اور درست سیاسی فیصلے دیکھنے کو ملیں۔

تحریک انصاف کے زرعی پیکج کو بھی صوبائی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے قابل عمل بنایا جانا چاہیے۔ اگر تحریک انصاف اس ابتدائی مرحلے میں دانشمندی کا مظاہرہ کر پاتی ہے اور اپنے ذہنی اور مادی وسائل کوصوبے خیبرپختونخوا میں بروئے کار لانے میں کامیاب ہو جاتی ہےتو یقیناً یہ ایک خوش کُن آعاز ہو گا۔ دیکھا جائے تو اس کے سوا اس نئی اور نوجوانوں میں مقبول جماعت کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ وعدے کرنے اور انہیں عملی جامہ پہنانے کا درمیانی وقفہ جتنا کم ہو گا، کامیابی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے وگرنہ خالی خولی وعدوں پر جیتے جیتے تو نسلیں بیت چکی ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر الطاف اللہ خان

ادارت: امجد علی