1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خودکش حملہ آور الگ قبرستان ميں، گمنام اور اکيلے

18 اپریل 2012

کابل کے کنارے پر ايک قبرستان خاص طور پر خود کش حملہ آوروں کے ليے مخصوص ہے۔

https://p.dw.com/p/14fvq
تصویر: picture-alliance/dpa

افغان دارالحکومت کابل ميں حملہ آوروں نے پچھلے پير کی صبح تک شہر کو سہمائے رکھا۔ آخر ميں سکيورٹی فورسز نے ان سب ہی کو ہلاک کرديا۔ پہلے تو اُن کی لاشيں پوسٹ مارٹم کے ليے ہسپتال لائی گئی تھيں۔ کابل کے کنارے پر ايک قبرستان خاص طور پر خود کش حملہ آوروں کے ليے مخصوص ہے۔ اس کو خود ديکھنے والے کائی کيوسٹنر کی دہلی سے روانہ کردہ رپورٹ يہ ہے:

يہ ايک ويران سی جگہ ہے۔ دور سے بچوں کے کھيلنے کی آوازيں آ رہی ہيں۔ يہ زندگی کا دور سے در آنے والا احساس ہيں۔ بہت دور ہی سے آسمان سے آتی ہوئی ايک ہوائی جہاز کی گونج بھی سنائی دے رہی ہے۔

ليکن اس کے علاوہ يہاں ايک گھمبير خاموشی چھائی ہوئی ہے، موت کی سی خاموشی۔ يہاں، کابل کے ايک کنارے پر اُن کی لاشيں دفن ہيں جنہوں نے خود اپنی زندگی ختم کرنے کے منصوبے بنائے تھے اور جنہوں نے زيادہ سے زيادہ افراد کو بھی اپنے ساتھ موت کی وادی ميں لے جانے کی کوشش کی تھی۔ يہاں سے کچھ دور رہنے والے بشير نے کہا: ’’وہ ان لاشوں کو اکثر پلاسٹک کے تھيلوں ميں بند يہاں لاتے ہيں اور دفن کرديتے ہيں۔‘‘

گورکن ہادی اللہ
گورکن ہادی اللہتصویر: picture-alliance/dpa

بشير اب اس کا عادی ہو گيا ہے کہ ايمبولنس گاڑياں حملہ آوروں کی لاشوں کو ٹکڑوں کی صورت ميں يہاں لاتی ہيں اور کسی رسم اور لواحقين کے بغير انہيں سپردخاک کر ديا جاتا ہے۔

بشير نے کہا کہ يہاں کبھی کوئی قبروں کی زيارت کے ليے نہيں آتا۔ غالباً مردوں کے لواحقين خوف کے مارے يہاں نہيں آتے کہ حکام ان کے پيچھے نہ لگ جائيں۔ اس کے علاوہ انہيں اپنے عزيزوں کی صحيح قبروں کا بھی پتہ نہيں ہوتا۔ کسی قبر پر نام کی کوئی تختی نظر نہيں آتی۔ اپنی موت کے بعد حملہ آور گمنام ہيں، اور اکيلے۔

نوجوان گورکن ہادی اللہ نے کہا: ’’مجھے خود کش حملہ آوروں سے نفرت ہے۔‘‘ بشير نے کہا کہ حملہ آوروں کو بہر صورت اسلامی تدفين کا تو حق حاصل تھا۔ ليکن ہادی اللہ اس کے خلاف ہے۔ وہ دوسروں کی موت کی وجہ بھی بننے والے خود کش حملہ آوروں کی قبر کھودنے تک سے انکار کرتا ہے۔

خودکش حملے افغانوں کی ايجاد نہيں ہيں۔ بين الاقوامی فوجی کارروائی سے پہلے عملاً ان کا وجود نہيں تھا۔ القاعدہ نے يہ جان ليوا طريقہ يہاں درآمد کيا تھا۔ آج يہ حملہ آور انتہا پسندوں کا ہتھيار بن گئے ہيں۔ طالبان بچوں کے جسموں پر بھی بم باندھنے سے گريز نہيں کرتے۔

بشير خود کش حملوں ليکن اُن کے ساتھ ساتھ غير ملکی فوجوں کو بھی برا سمجھتا ہے: ’’ وہ رات کو افغان گھروں ميں گھس آتے ہيں اور تلاشی ليتے ہنں۔ يہ افغان ثقافت کے خلاف ہے۔‘‘

انتہا پسند خود کش حملہ آوروں کو يہ يقين دلاتے ہيں کہ وہ جنت ميں جائيں گے۔

K.Küstner/N.Naumann/sas/ai