1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خبردار رہیں، ایسا بھی ہوتا ہے

امجد علی3 فروری 2015

جاپانی پولیس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کر لیا ہے، جس پر ایک سو سے زیادہ خواتین کو نشہ آور ادویات دینے اور پھر اُنہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا الزام ہے۔

https://p.dw.com/p/1EUoS
تصویر: picture alliance/ Franck Robichon

ان خواتین کا خیال تھا کہ وہ ایک طبی مطالعاتی جائزے کی تیاری کے سلسلے میں تعاون کر رہی ہیں۔ مقامی میڈیا اور تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ ’نیند کے دوران بلڈ پریشر ماپنے کے حوالے سے طبی تحقیق‘ سے متعلق اشتہارات پر درجنوں خواتین نے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا تھا۔

فرانسیسی نیوز ایجنسی نے ٹوکیو سے اپنے ایک جائزے میں گرفتار کیے گئے 54 سالہ ہائیڈے یُوکی نوگوشی کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ پہلے ان خواتین کو ہوٹلوں اور دیگر تفریحی مقامات پر بلاتا تھا اور پھر اُنہیں سکون آور ادویات دے دیتا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جب یہ خواتین بے ہوش ہو جاتی تھیں، تب وہ اُن کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا تھا اور اس سارے عمل کو مووی کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر لیتا تھا۔

ٹی بی ایس اور دیگر نشریاتی اداروں نے بتایا ہے کہ ان جنسی حملوں کی ویڈیو فلمیں بعد ازاں یا تو انٹرنیٹ پر پوسٹ کر دی جاتی تھیں یا پھر فحش فلمیں بنانے والے فلمسازوں کو فروخت کر دی جاتی تھیں۔ ان مقامی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے نوگوشی نے دَس ملین ین (پچاسی ہزار ڈالر) سے زیادہ کی آمدنی حاصل کی۔

Symbolbild für Vergewaltigung

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نوگوشی نے کسی بھی طرح کی میڈیکل ٹریننگ حاصل نہیں کر رکھی اور نہ ہی وہ طبی شعبے میں ویسے کوئی مہارت رکھتا ہے۔

ٹوکیو سے مشرق کی جانب واقع شہر چیبا میں پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ اب تک پولیس افسران نوگوشی کے ستم کا شکار ہونے والی کم از کم اڑتیس خواتین کی تصدیق کر چکے ہیں۔ ان خواتین میں نو عمر لڑکیوں سے لے کر چالیس سال تک کی عمر کی خواتین شامل ہیں۔ طبی تحقیق میں تعاون کے بہانے جنسی زیادتی کے یہ واقعات دو سال تک عمل میں آتے رہے اور نومبر 2013ء تک جاری رہے۔

مقامی میڈیا کی رپورٹوں میں متاثرہ خواتین کا تعلق ٹوکیو، چیبا، اوساکا، ٹوشیگی اور شیزوکا سے بتایا گیا ہے۔ ان رپورٹوں کے مطابق اگرچہ اب تک محض تقریباً چالیس متاثرہ خواتین کے بارے میں تفصیلات کی تصدیق ہو سکی ہے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ متاثرہ خواتین کی تعداد ایک سو سے بھی زیادہ رہی ہو گی۔