1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومت اغوا شدہ کارکنوں کو رہا کرے: بلوچ رہنما

17 مئی 2010

پاکستانی صوبےبلوچستان کے قوم پرست رہنماؤں نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر آپریشن روکنے اور مبینہ طور پرخفیہ اداروں کے ہا تھوں اغوا کئے جانے والے بلوچوں کی بازیابی نہ ہوئی تو وہ علحیدگی پسندوں کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/NQMH
تصویر: picture-alliance / dpa

فرینڈز آف بلوچستان نامی تنظیم کی دعوت پر اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں شرکت پر آئے قوم پرست رہنما عبدالواحد بلوچ کا کہنا تھا کہ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آپریشن اور فوجی چھاؤنیوں کی تعمیر کا کام جاری ہے۔

ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے واحد بلوچ نے کہا کہ وفاق نے اب تک بلوچوں کو جان بوجھ کر حقیقی قیادت سے محروم رکھا اور بقول ان کے 63 سال گزرنے کے باوجود وفاق میں آج بھی بلوچوں کی اصل نمائندگی موجود نہیں: ’’ہرحکومت نے بلوچستان کی حقیقی قیادت کو آگے لانے کی بجائے وہاں پر اپنے چہیتے لوگ پالے، جنہوں نے مقامی قیادت سے بات چیت اور مثبت تعلقات استوار کرنے کے بجائے حقیقی قیادت کو نوٹوں کے بنڈل تقسیم کر کے ہروایا، اپنے ہی ہمنواؤں کی مدد کی اور ان کو آگے لائے، جس سے مسائل میں اضافہ ہوتا گیا اور مسئلہ شدت اختیار کر گیا اس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ کسی فرد کو اعتماد نہیں رہا۔‘‘

حکومت کی جانب سے آغاز حقوق بلوچستان نامی پیکج پر عملدرآمد کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں قوم پرست طالب علم رہنما حلیم بلوچ نے کہا کہ اس پیکج پر ابھی تک تو عملدرآمد نہیں ہوا اور بقول ان کے اب اس پیکج پر عملدرآمد کیا بھی کیا گیا تو بہت دیر ہو چکی ہے۔ فرینڈز آف بلوچستان نامی تنظیم کے ایک رکن اور حکمران پیپلز پارٹی امان اللہ گچکی نے بھی بلوچستان پیکج کے حوالے سے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’موجودہ حکومت کی طرف سے اعلان کئے گئے آغاز حقوق بلوچستان پیکج کی تحریری طور پر سفارشات سے میں سو فیصد متفق ہوں چونکہ اس پیکج کو ابھی تک عملی جامہ نہیں پہنایا گیا اس لئے تاحال میں مزید کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘

Unruhen in Pakistanischen Grenzgebieten
بلوچستان میں چند برس قبل ایک فوجی آپریشن کے نتیجے میں نواب اکبر بگٹی پلاک کر دئے گئے تھےتصویر: AP

بلوچستان کی ایک سماجی کارکن فضیلہ عالیانی نے کہا کہ وفاق اور صوبے خفیہ ایجنسیوں، قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں کے جھگڑے میں اصل نقصان پہلے سے پسماندہ ان بلوچ خواتین کا ہو رہا ہے، جنہیں سب نے مکمل نظر انداز کر رکھا ہے : ’’نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان سے گمشدہ ہونے والی وہ خواتین جو پنڈی، اسلام آباد پہنچ کر بھیک مانگ رہی ہیں۔سب سے زیادہ نقصان تو ان کا ہوا ہے۔ میرے خیال میں سب سے بڑی چیز تعلیم ہے، جب تک عورت کے پاس تعلیم نہیں ہوگی اس وقت تک وہ پہروں میں رہے گی۔‘‘

قوم پرست رہنماؤں کا یہ بھی کہنا تھا کہ خفیہ ایجنسیوں نے بلوچستان بھر سے سینکڑوں سیاسی کارکنوں کو اغواء کرنے کے علاوہ متعدد کی ٹارگٹ کلنگ بھی کی ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین ترمذی نے خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے بلوچستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے کردار کو محدود نہ کیا گیا تو پھر بلوچستان میں شاید کبھی بھی معاملات درست نہ ہو پائیں۔

’’ہمارے ملک میں ایجنسیاں فیصلہ کن طاقت بن گئی ہیں ان کی ہر بات حرف آخر ہوتی ہے اور دوسرے لوگ اور ادارے ان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایجنسیوں کے ان اقدامات کو تقویت اور آشیر باد عوامی اور جمہوری حکومتوں نے دی ہے۔ اور آج ایجنسیاں اتنی مضبوط ہیں کہ ملک انہی کے اشاروں پر چل رہا ہے۔‘‘

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت : عاطف توقیر