1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حَلب سے باغی فوج کی جزوی پسپائی

9 اگست 2012

شامی حکومت کی مخالف فری سیریئن آرمی تجارتی مرکز کہلانے والے شہر حَلب سے جزوی پسپائی کا اعلان کیا ہے دوسری جانب ایران نے شام کے تنازعے کے حل کے لیے بارہ ملکی کانفرنس کا انعقاد کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/15mIK
تصویر: Reuters

شامی فوج نے باغیوں کے خلاف ملکی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ باغیوں کے ایک کمانڈر ابو محمد کے بقول ضلع صلاح الدین کے بعض علاقوں سے ان کے جنگجو چلے گئے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بذریعہ ٹیلی فون بات کرتے ہوئے اس کمانڈر کا کہنا تھا کہ جنگجو قریبی علاقے میں جمع ہوکر فوج کے خلاف جوابی کارروائی کریں گے۔ ان کے بقول ملکی فوج بھاری ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔ کمانڈر ابو محمد کے بقول اس دوران متعد عام شہری اور چالیس باغی جنگجو مارے جاچکے ہیں۔ باغیوں کے ایک دوسرے کمانڈر وصال ایوب نے بھی حلَب کے ضلع صلاح الدین سے باغیوں کی پسپائی کی تصدیق کی ہے۔

دوسری جانب شام کے معاملے کے سفارتی حل کے لیے ایران نے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ تہران حکومت آج ایک بارہ ملکی کانفرنس کی میزبانی کر رہی ہے، جس میں اُس کے بقول شام سے متعلق ’حقیقت پسندانہ‘ نقطہ نظر رکھنے والے ممالک شریک ہیں۔ اس کانفرنس میں روس اور چین سمیت پاکستان، بھارت، تاجکستان، الجیریا اور عرب لیگ کے چھ رکن ممالک کی شرکت کا بتایا جارہا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر صالیحی کا کہنا ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کا زوال تباہی کا سبب بنے گا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے ایک مضمون میں انہوں نے لکھا ہے کہ شامی معاشرہ مختلف نسلوں، عقائد اور ثقافتوں کا گہوارہ ہے اور اگر اسد حکومت کا زوال ہوا تو یہ بکھر جائے گا۔

Treffen Bashar Assad und Saeed Jalili Damaskus Syrien
ایرانی وزیر صدر اسد سے ملاقات کے موقع پرتصویر: picture-alliance/dpa

ایرانی وزیر کے بقول ان کا ملک شامی تنازعے کا ایک ایسا حل چاہتا ہے جو سب کے مفاد میں ہو۔ مغربی سفارتکار اس کانفرنس کو بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک سازش قرار دے رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے تہران میں مقیم ایک مغربی سفارتکار کی زبانی بتایا کہ تہران حکومت کی بشار الاسد کے لیے حمایت اس قدر ہے کہ اس سے تنازعے کے فریقین کے مابین حقیقی مصالحت کی امید نہیں کی جاسکتی۔

شام کے پڑوسی ملک اردن کے شاہ عبد اللہ دوم کا اس معاملے میں کہنا تھا کہ صدر اسد اور ان کی حکومت بزور طاقت مخالفین کی آواز بند کرنے کا تہہ کیے ہوئے ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر صدر اسد ملک پر کنٹرول نہ رکھ سکے تو علوی اکثریت کے ایک خطے کا قیام ان کا پلان ہوسکتا ہے۔

sks/km /AFP, Reuters