1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حج 2020 : عازمین دُکھی، تاجر پریشان

7 جولائی 2020

کورونا وائرس کی سبب امسال حج کے تقریباً منسوخ کردینے کے فیصلے سے جہاں دنیا بھر کے مسلمان غمزدہ ہیں وہیں لاکھوں سعودی تاجر بھی ممکنہ مالی نقصان کے خدشے سے پریشان ہیں۔

https://p.dw.com/p/3etMG
Saudi-Arabien einsame Pilger in Mekka an der Kaaba
تصویر: AFP

حج کو اس سرزمین پر سب سے بڑا اجتماع قرار دیا جاتا ہے۔ ہر برس پچیس سے تیس لاکھ کے قریب افراد حج کرنے کے لیے سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ آتے ہیں۔ تاہم کووڈ19کی وجہ سے اس سال صرف ایک ہزار کے قریب لوگوں کو ہی حج کی اجازت دی جائے گی۔ البتہ حتمی تعداد کا اعلان ابھی نہیں کیا گیا ہے۔

گزشتہ برس پچیس لاکھ افراد نے فریضہ حج ادا کیا تھا۔ اس میں سعودی عرب کے تقریباً آٹھ لاکھ اور دنیا کے دیگر ملکوں کے اٹھارہ لاکھ مسلمان  مکہ مکرمہ آئے تھے۔ لیکن سعودی حکومت کے فیصلے سے جہاں دنیا بھر کے مسلمان دکھی ہیں وہیں ایسے لاکھوں سعودی شہری بھی پریشان ہیں جن کی معیشت کا بڑی حد تک انحصار حج پر ہوتا ہے۔

12ارب ڈالر کا نقصان 

ماہرین کہتے ہیں کہ سعود ی عرب کی معیشت کا تیل کے بعد سب سے زیادہ انحصار حج او رعمرہ سے ہونے والی آمدنی پر ہے۔ لیکن کورونا وائر س کی وبا کے سبب عمرہ پر مکمل پابندی اور حج کو برائے نام کرنے کی وجہ سے سعودی معیشت کو زبردست دھچکا لگے گا۔ شہر کے تمام بڑے ہوٹل خالی پڑے ہیں جبکہ عام طورپر یہ ایام حج سے ایک ماہ پہلے ہی بھر جایا کرتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق مقامی لوگوں کو حج سے ہونے والی 12 ارب ڈالر کی آمدنی کا خسارہ ہوسکتا ہے۔

Saudi Arabien Hadsch nach Mekka
ہر برس پچیس سے تیس لاکھ کے قریب افراد حج کرنے کے لیے سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ آتے ہیں۔تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin

مکہ مکرمہ میں مسجد حرم کے سامنے عطریات کی دکان کے مالک مقامی تاجر ہاشم طیب کہتے ہیں ”مجھے فی الحال اپنی دکان بند کرنی پڑی ہے۔ بہت سے ریستوراں بھی بند ہیں، حجام کی دکانیں اور دیگر تجارتی ادارے بھی بند پڑے ہیں۔ اس سے یقیناً سب لوگ اور بالخصوص ٹریول ایجنٹ متاثر ہوں گے۔“

ہاشم طیب تاہم حج کو محدود کرنے کے سعودی حکومت کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے آنے سے وبا کے پھیلنے کا خطرہ تو بہر حال برقرار رہتا جبکہ اس ملک میں پہلے ہی انیس لاکھ سے زیادہ افراد اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں۔

 عمرہ پر پابندی کی وجہ سے بھی سعودی معیشت کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ سال بھر چلنے والے عمرہ سے ہونے والی آمدنی ملک کی جی ڈی پی کا 20 فیصد ہے۔ آمدنی کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کے خرچ کرنے کی صلاحیت بھی کم ہوگئی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے اس برس اپریل میں صارفین کے اخراجات میں 34 فیصد کی کمی درج کی گئی۔

Mohammed bin Salman al-Saud ist der Kronprinz, Verteidigungsminister und stellvertretende Premierminister Saudi-Arabiens
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمانتصویر: picture-alliance

مدینہ منورہ میں عازمین حج و عمرہ کو ٹیکسی خدمات فراہم کرنے والے ایک شخص نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے چار ماہ سے اس کا کاروبار ٹھپ پڑا ہے۔ وہ اور اس کے ساتھی بے روزگار ہوگئے ہیں۔

محمد بن سلمان کا امتحان

ماہرین کے مطابق حج اور عمرہ کو بند کرنے کا فیصلہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ’ویزن 2030‘ پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ انہوں نے اس منصوبے کے تحت سعودی معیشت کا تیل پر سے انحصار کم کرکے دوسرے شعبوں کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔  بعض تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ ویزن 2030 کی وجہ سے سعودی عرب کے نوجوانوں میں جو امیدیں پیدا ہوئی ہیں اگر وہ پوری نہیں ہوئیں اور انہیں روزگار نہیں مل سکا نہیں تو یہ صورت حال محمد بن سلمان کے لیے ایک بڑا امتحان بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

سن 2020 کے لیے حج کے شرائط

دریں اثنا سعودی عرب کی وزارت حج وعمرہ نے اس سال فریضہ حج ادا کرنے والے خوش نصیبوں کے انتخاب کے معیار کا  پیر کے روز اعلان کردیا۔ سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کی رپورٹ کے مطابق اس مرتبہ عازمینِ حج میں سعودی عرب میں مقیم غیرملکی تارکینِ وطن کی تعداد 70 فی صد ہوگی اور 30 فی صد سعودی شہری حج ادا کریں گے۔ ان کے انتخاب میں صحت کے معیارات کو اوّلین ترجیح اور مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔

 حج کے لیے رجسٹریشن کرانے والے تمام افراد دیگر دستاویزات کے ساتھ ساتھ اپنی صحت کے حوالے سے مصدقہ میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی شامل کریں گے جس میں ان کے کورونا جیسی وبا کا شکار نہ ہونے کی تصدیق کی گئی ہو۔

خیال رہے کہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے اور یہ ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔

ٹام ایلنسن/  ج ا /  ص ز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں